اشتہار

لہلہاتا ہے وہاں ارضِ فلسطیں کا علَم

اشتہار

حیرت انگیز

فلسطین کے مظلوم عوام اور اس سرزمین پر تحریکِ آزادی دنیا بھر میں حرّیت پسندی کے باب میں بے مثال قربانیوں اور لازوال شہادتوں کے سبب ہر ملک کے ادب کا حصّہ رہی ہے۔ دنیا میں امن و سلامتی اور محبت کا پیغام عام کرنے والے دانش ور، ادیب اور شاعر اسرائیلی جارحیت اور عالمی طاقتوں کی جانب سے اس کی حمایت کو زیرِ بحث لاتے رہے ہیں اور دنیا کی منافقت اور دہرے معیار کو بے نقاب کیا ہے۔

عالمی شہرت یافتہ ترقی پسند شاعر فیض احمد فیضؔ نے بھی انسانیت اور درد مندی کے جذبے سے سرشار ہوکر فلسطین کے لوگوں اور تحریکِ آزادی پر نظمیں تخلیق کی ہیں۔ فیضؔ کے آخری شعری مجموعے ”مرے دِل مرے مسافر” کا انتساب بھی یاسر عرفات کے نام ہے اور اس مجموعے میں کئی نظمیں فلسطین سے متعلق ہیں۔ فیض کی ایک نظم ”فلسطینی شہدا جو پردیس میں کام آئے” ہے۔ اس کا انداز خطابیہ ہے مگر اس میں رُوے سخن ارضِ فلسطین کی طرف ہے۔ یہ نظم ملاحظہ کیجیے۔

میں جہاں پر بھی گیا ارضِ وطن
تیری تذلیل کے داغوں کی جلن دل میں لیے
تیری حرمت کے چراغوں کی لگن دل میں لیے
تیری الفت تری یادوں کی کسک ساتھ گئی
تیرے نارنج شگوفوں کی مہک ساتھ گئی
سارے ان دیکھے رفیقوں کا جلو ساتھ رہا
کتنے ہاتھوں سے ہم آغوش مرا ہاتھ رہا
دور پردیس کی بے مہر گزر گاہوں میں
اجنبی شہر کی بے نام و نشاں راہوں میں
جس زمیں پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم
لہلہاتا ہے وہاں ارضِ فلسطیں کا علَم
تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطیں برباد
میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطیں آباد

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں