بدھ, مارچ 26, 2025
اشتہار

فیض آباد دھرنا کیس : سپریم کورٹ نے اہم سوالات اٹھادیئے

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد : فیض آباد دھرنا کیس میں سپریم کورٹ نے اہم سوالات اٹھادیئے، تحریری حکم نامے میں لکھا کہ طویل وقت گزرنے کے باوجود نظرثانی درخواستیں کیوں سماعت کیلئے مقرر نہیں کی گئیں؟

تفصیلات کے مطابق فیض آباد دھرنا کیس میں سپریم کورٹ کی 28 ستمبرکی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا گیا ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 4صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا۔

جس میں کہا گیا ہے کہ فریقین مزید حقائق واضح کرنا چاہیں تو ایک اور موقع دیا جاتا ہے، دوران سماعت مقدمہ کے 4سال تاخیرسےمقررہونےسمیت متعدد سوالات سامنےآئے، نظرثانی درخواستیں دائر اور واپس لینےکی وجوہات کے سوال بھی سامنے آئے۔

حکم نامے میں کہا ہے کہ ایک سوال 4سال سے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے کا بھی سامنے آیا، فریقین کو ایک اور موقع دیا جاتا ہے کہ سوالات کی روشنی میں گزارشات پیش کریں، وزارت دفاع، پیمرا، انٹیلی جنس بیورو نظر ثانی واپس لینے کی استدعا کی۔

تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے کہا وزارت دفاع نظرثانی درخواست پر مزید کارروائی نہیں چاہتی، آئی بی، پیمرا، پی ٹی آئی نےبھی متفرق درخواست کےذریعےنظرثانی درخواستیں واپس لینےکی استدعا کی، درخواست گزار شیخ رشید نے نیا وکیل کرنے کے لیے مزید مہلت کی استدعا کی، درخواست گزار اعجاز الحق نے فیصلے کے پیراگراف نمبر چار پر اعتراض اٹھایا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ دوران سماعت کیس سے متعلق چار سوالات اٹھائے گئے، پہلا سوال ، طویل وقت گزرنے کے باوجود نظرثانی درخواستیں کیوں سماعت کیلئےمقرر نہیں کی گئیں، دوسرا سوال ،نظرثانی درخواستیں واپس لینےکیلئےایک ساتھ متعدد متفرق درخواستیں کیوں دائر کی گئیں، تیسرا سوال، کیا آئینی و قانونی اداروں کا نظرثانی درخواستیں واپس لینے کا فیصلہ آزادانہ ہے، چوتھا سوال، کیا فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پر عملدرآمد ہو گیا؟

حکم نامے کے مطابق کچھ درخواست گزاروں کی عدم حاضری پر انہیں ایک اور موقع دیا جاتا ہے، عدالت نے مشاہدہ کیا کہ کچھ لوگوں نے عوامی سطح پر کہا کہ انہیں معلوم ہے کہ کیا ہوا، ان لوگوں کا کہنا تھا فیض آباد دھرناکیس میں عدالت نے انکےنکتہ نظرکومدنظرنہیں رکھا۔

تحریری حکم میں کہا ہے کہ فیض آباد دھرنا فیصلے کے پیراگراف 17کےتحت یہ مؤقف عدالت کے لیے حیران کن ہے، عدالت نے فیصلے میں کہا تھا کوئی بھی متاثرہ فریق آگے بڑھ کر تحریری مؤقف دے سکتا ہے، عدالت ایک اور موقع دیتی ہے کوئی حقائق منظر عام پر لانا چاہے تو بیان حلفی پیش کرے۔

عدالت نے بتایا کہ اٹارنی جنرل نے کہا فیض آباد دھرنا ایک محدود وقت کیلئےاسکے دائرہ اختیار کووسیع نہیں کیا جانا چاہیے، کوئی بھی فریق یاکوئی اور شخص اپناجواب جمع کرانا چاہے تو 27 اکتوبر تک جمع کرا دے، سپریم کورٹ میں کیس کی آئندہ سماعت یکم نومبر کو ہوگی۔

حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ تحریک انصاف نے نظرثانی کیس میں فریق بننےکی درخواست واپس لینےکی استدعاکی، تحریک انصاف کے مطابق فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ قانون کے مطابق ہے جبکہ شیخ رشید کے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نے التوا کی استدعا کی، شیخ رشید کےایڈووکیٹ آن ریکارڈ آئندہ سماعت پر دلائل دیں یا متبادل وکیل کابندوبست کریں۔

عدالت حکم نامے کے مطابق ایم کیو ایم کے ایڈووکیٹ ریکارڈ کے مطابق انکا موکل سے رابطہ نہ ہو سکا، ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کو موکل ایم کیو ایم سے رابطہ کرنے کی مہلت دی جاتی ہے جبکہ اعجاز الحق کے وکیل نے ادارے کی رپورٹ پر اعتراض اٹھایا، وکیل اعجاز الحق نے نئی ہدایات و بیان حلفی جمع کرانےکیلئے مہلت مانگی۔

سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے نظر ثانی واپس لینے کی استدعا کی، کیا الیکشن کمیشن و دیگر اداروں نے آزادانہ طور پر نظرثانی دائر کی؟ کیا الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عمل در آمد کردیا ہے؟ فیض آباد دھرنے سے متعلق جس کے پاس بھی معلومات ہوں سامنےلائے، اٹارنی جنرل کےمطابق نظرثانی کیس میں معاملے کو مزید نہ پھیلایا جائے، بعض لوگوں نے عوامی سطح پر کہا کہ ان کا موقف سنا ہی نہیں گیا تھا، جو بھی اپنا مؤقف پیش کرنا چاہے بیان حلفی کےذریعے کر27 اکتوبرتک کرسکتا ہے۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں