اتوار, مئی 11, 2025
اشتہار

کاغذ کے ٹکڑوں سے پاکستان نہیں چلے گا، چیف جسٹس نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھا دیا

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد:چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباددھرنانظرثانی کیس میں حکومتی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہوئے اسے دھول جھونکنے کے مترادف قراردے دیا اور کہا کاغذ کے ٹکڑوں سے پاکستان نہیں چلے گا۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال مندوخیل بینچ کا حصہ ہیں۔

اٹارنی جنرل سمیت دیگر وکلاروسٹرم پر آئے، چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل کو گزشتہ سماعت کا حکمنامہ پڑھنے کی ہدایت کی، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزارت دفاع کی نظرثانی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ابصار عالم کہاں ہیں؟ تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ابصار عالم راستے میں ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ابصار عالم نے وزارت دفاع کے ملازمین پر سنجیدہ الزامات عائد کیے ہیں تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحقیقات کیلئے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی قائم کر دی ہے،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے اگر ابصار عالم کے الزامات درست ہیں تو یہ معاملہ آپ سے متعلق ہے، فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کب قائم ہوئی ہے؟ تو اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کمیٹی 19 اکتوبر کو قائم کی گئی۔

چیف جسٹس نے حکومتی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کودھول جھونکنے کےمترادف قرار دے دیا اور کہا واضح کریں کمیٹی کی قانونی حیثیت کیا ہے، کمیٹی کے قیام کی دستاویز صرف کاغذ کا ٹکڑا ہے، کاغذ کے ٹکڑوں سے پاکستان نہیں چلے گا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا عدالتی فیصلے کے بعد ملک آئین پر چل رہاہے؟ کیا گارنٹی دے سکتے ہیں آج ملک آئین کے مطابق چل رہاہے؟

جسٹس قاضی عیسی نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی فیصلے پر آج تک عمل کیوں نہیں کیا گیا، ایک صاحب باہر سے امپورٹ ہوئے اور واپس چلے گئے، دھرنا اچانک نہیں ہوا، ماسٹر مائنڈ کون تھا؟ کمیٹی رپورٹ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ابصار عالم کے الزامات درست ثابت ہوئے تو معاملہ وزارت دفاع پرآئے گا،کیا اب بھی وزارت دفاع اپنی درخواست واپس لیناچاہتی ہے؟ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت فیصلے پر عملدرآمد کرنا چاہتی ہے، فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کا قیام اسی سلسلےکی کڑی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کمیٹی قیام کا نوٹیفکیشن کہاں ہے؟ رپورٹ کس کو دے گی؟اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کمیٹی وزارت دفاع کورپورٹ دےگی،پہلا اجلاس26 اکتوبر کو ہوچکا، کمیٹی رپورٹ عدالت میں بھی پیش کی جائے گی، جس پر جسٹس قاضہ فائز عیسیٰ نے کہا کہ کمیٹی ٹی او آرز کے ذریعے ہی تمام لوگوں کو بری کر دیا گیا ہے،کمیٹی ٹی او آرز میں کہاں لکھا ہے تحقیقات کس چیز کی کرنی ہیں؟ کیا تحقیقات سیلاب کی کرنی ہے یا کسی اور چیز کی؟

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا کمیٹی کی منظوری کابینہ نے دی ہے؟ کمیٹی کا قیام کس قانون کے تحت ہوا ہے؟ سپریم کورٹ نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھا دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ابصار عالم یا کوئی کمیٹی میں پیش ہونے سے انکار کرےتو کیا ہوگا؟ کمیٹی انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت بنتی توشائد کچھ کر بھی سکتی،حکومت نے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کیلئے کچھ نہیں کیا، حکومت پھر صاف کہہ دے کہ اس نے کچھ نہیں کرنا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کمیشن کیلئے وفاقی حکومت کی منظوری درکارہوتی ہے ، تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ انکوائری ایکٹ کے تحت نیا کمیشن تشکیل دیاجائے گا، یقین دہانی کراتا ہوں حکومت فیصلے پر عملدرآمد چاہتی ہے، جس پر جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آئین کی بالادستی ہرقیمت پرقائم کرناہوتی ہے، فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ تاریخی ہے۔

سپریم کورٹ نے حکومت کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے فیصلے کیخلاف9نظرثانی درخواستیں آئیں پھر اچانک سب نے واپس لےلیں، کیا نظرثانی درخواست دائر کرکے واپس لینا مذاق ہے؟کونسا قانون کہتاہے نظرثانی دائر ہوتو فیصلے پر عمل نہیں کرنا؟

جسٹس قاضی فائز عیسی نے سوال کیا کہ کیا ہماری حکومت نےکینیڈا کی حکومت سےرابطہ کیا ہے؟ چیف جسٹس ایک شخص کینیڈا سے آتا ہے اور پورا ملک اوپرنیچےکرکے چلا جاتا ہے، کینیڈا نے سکھ رہنما کے قتل پر کتنا ردعمل دیاہے، کیا ہم کینیڈا میں جا کر انکے پورے ملک کو ڈسٹرب کرسکتے ہیں؟ کیا کینیڈا سے آنے والے نے ٹکٹ خودخریدی تھی؟ پاکستان کا اتنا ہی درد ہے تو یہاں آ کر کیوں نہیں رہتے؟

اہم ترین

راجہ محسن اعجاز
راجہ محسن اعجاز
راجہ محسن اعجاز اسلام آباد سے خارجہ اور سفارتی امور کی کوریج کرنے والے اے آر وائی نیوز کے خصوصی نمائندے ہیں

مزید خبریں