تازہ ترین

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

سوشل میڈیا پرسب سے بڑا چیلنج ’جعلی خبریں‘ ہے

فیک نیوز، فیک نیوز سن سن کر آپ کے کان پک گئے ہوں گے، یہ ایک ایسی اصطلاح ہے جو آپ نے دو سال قبل نہیں سنی ہوگی، لیکن آج سوشل میڈیا کی وجہ سے یہ سب کے لیے ایک جانی پہچانی ’چیز‘ بن گئی ہے۔ جی ہاں، سماجی دانش ور اسے ’عالمی اور مقامی منڈی کی حکمت عملی‘ سمجھتے ہیں۔

جدید دنیا میں آج نظامِ حکومت کے لیے جمہوریت (ڈیمو کریسی) کو درست ترین انتخاب سمجھا جاتا ہے، دل چسپ امر یہ ہے کہ فیک نیوز یعنی جعلی خبر کو اسی جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔ جعلی خبر آزادانہ بحث اور اس سے بڑھ کر خود ’مغربی نظام‘ کی دشمن بن گئی ہے۔

ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں لوگ اب سوشل میڈیا کو صرف انٹرنیٹ کا دروازہ نہیں سمجھتے، بلکہ ’خبر‘ کا ایک اہم ذریعہ بھی سمجھتے ہیں۔ دو سال سے ابھرنے والا یہ مسئلہ اب ایک زبردست چیلنج کی صورت اختیار کر چکا ہے کیوں کہ جعلی خبروں اور غلط اطلاعات پھیلانے کے لیے زیادہ جدید ٹیکنالوجی وجود میں آ چکی ہے۔

فیک نیوز یعنی جعلی خبر کیا ہے؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ ’فیک نیوز غلط اطلاع دینے کی ایک شکل ہے، یہ ایک غلط اور جھوٹی خبر کو کہتے ہیں۔‘ بعض اوقات جعلی خبر پوری طرح جعلی نہیں ہوتی اس لیے اسے پکڑنا آسان نہیں ہوتا، اور اکثر لوگ طنزیہ انداز میں دی جانے والی خبر کو بھی سنجیدہ سمجھ کر اسے فیک نیوز کے زمرے میں شامل کر دیتے ہیں جو درست نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ لوگوں میں طنز کو سمجھنے کی صلاحیت کی کمی ہے۔

آپ نے پاکستانی اخبارات میں اور برقی میڈیا پر ’زرد صحافت‘ کی اصطلاح بھی بہت سنی ہوگی، فیک نیوز اسی ’یلو جرنلزم‘ یا پروپگینڈے کی ایک قسم ہے، جو جان بوجھ کر پرنٹ، براڈ کاسٹ نیوز میڈیا یا آن لائن سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ پہلے پہل سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی جھوٹی اطلاع آخر کار مرکزی دھارے کی میڈیا میں بھی جگہ بنا لیتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ جعلی خبر کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ زیادہ تر اس کا تعلق سیاست سے جڑا ہوا ہے جیسا کہ عالمی سطح پر بھی اسے جمہوریت کو نقصان پہچانے کے لیے بنایا جانے والا ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔ خود پاکستان میں بھی اس سے یہ کام وسیع سطح پر لیا گیا ہے۔ سیاست دانوں کے بارے میں لاتعداد غلط خبریں پھیلائی گئیں، آج ملک میں سیاست کا نام ہی گالی بن چکا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ سیاست دانوں کی اپنی حرکتیں زیادہ تر مشکوک رہی ہیں تاہم ملک میں جمہوریت کو کم زور کرنے کے لیے اس ہتھیار سے بہت کام لیا گیا ہے۔

غلط خبر، جھوٹی خبر یا فیک نیوز کی زد میں ریاستی ایجنسی بھی ہوتی ہے، سرکاری ادارہ بھی، کوئی اہم اور نمایاں شخصیت بھی، اور فیک نیوز کے ذریعے مالی یا سیاسی فائدہ بھی حاصل کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ کلک ریونیو بڑھانے کے لیے بھی سنسنی خیزی سے کام لیا جاتا ہے جو جھوٹی خبر یا غلط انداز سے لکھی اور شایع کی گئی خبر کے ذریعے پیدا کی جاتی ہے۔

فرخ ندیم انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی کے شعبۂ انگریزی میں لیکچرار کے عہدے پر فائز ہیں، یہ ادبی اور ثقافتی نقاد ہیں اور ثقافتی تنقید کے موضوع پر دو ماہ قبل ان کی ایک بے حد وقیع کتاب بھی شایع ہوئی ہے، فیک نیوز کے حوالے سے کہتے ہیں ’فیک نیوز دراصل سرمایہ دارانہ کلچر کا ایک بڑا بحران ہے۔‘ یعنی جعلی خبر کا تعلق سرمائے سے بھی ہے، اس کے پیچھے سرمائے کی طاقت ہوتی ہے، دولت کے پجاری ادارے عوام کی ذہن سازی کی خاطر فیک نیوز کا استعمال کرتے ہیں۔ فرخ ندیم نے ایک زبردست مثال دی، انھوں نے کہا ’جیسے اسٹاک ایکس چینج کو بعض اوقات فیک نیوز سے تحریک دی جاتی ہے۔‘

جعلی خبر کو پکڑنا آسان نہیں ہوتا لیکن بعض اوقات اسے پکڑا بھی جاسکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ ضرور دیکھا جانا چاہیے کہ کوئی خبر اگر معمول سے ہٹ کر آ رہی ہے تو کیا اس کو زیادہ ویریفائیڈ اکاؤنٹس اور ذمہ دار لوگ شیئر کر رہے ہیں۔ اکثر آپ نے دیکھا ہوگا کہ خبر ٹویٹر اور فیس بک پر ٹرینڈ بنی ہوئی ہے لیکن ذمہ دار لوگ اسے شیئر نہیں کر رہے ہوتے۔ اس سلسلے میں یہ کرنا چاہیے کہ ذمہ دار اداروں اور لوگوں کے اکاؤنٹس چیک کیے جائیں کہ کیا وہاں سے بھی خبر دی گئی ہے یا نہیں۔

فیک نیوز اور انتخابات کا قریبی تعلق ہے۔ پاکستان میں انتخابات 2018 سے قبل سوشل میڈیا جعلی خبروں کے طوفان کی زد میں تھا جس کی بے شمار مثالیں پڑی ہیں۔ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی بیگم کلثوم کی موت خبر، خود نواز شریف کے وطن واپس نہ آنے کی خبریں، انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف سابقہ بیوی ریحام خان کی کتاب کے مندرجات کے حوالے سے بے تحاشا غلط خبریں، پاک فوج کے شعبۂ اطلاعات (آئی ایس پی آر) کے حوالے سے خبریں، اور ان فیک نیوز کے درمیان کرکٹر عبد الرزاق کی موت کی خبر، اس کی محض چند مثالیں ہیں۔

عالمی سطح پر امریکی انتخابات اس کی تازہ اور بڑی مثال ہے جس کے سلسلے میں ابھی بھی فیس بک ایسے جعلی اکاؤنٹس اور پیجز کی تلاش میں لگا ہوا جہاں سے امریکی انتخابات میں رائے عامہ پر باقاعدہ طور پر اثرات ڈالے گئے۔ امریکا نے روس پر بھی الزام لگایا کہ اس نے مداخلت کی ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو جتوانے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں روس کی انٹرنیٹ ریسرچ ایجنسی کو بھی ملوث قرار دیا گیا جس نے وسیع پیمانے پر غلط خبریں اور اطلاعات پھیلا کر رائے عامہ تبدیل کی۔

پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ماہرین کہتے ہیں کہ فیک نیوز کی ایک بڑی پہچان ’ہیٹ اسپیچ‘ بھی ہوتی ہے، ایک ایسا مواد جو نفرت پر مبنی ہوتا ہے، جس کے ذریعے کسی فرد، کسی جماعت، کسی ادارے، کسی صوبے یا حکومت کے بارے میں حقایق کو مسخ کیا جاتا ہے اور لوگوں کو نفرت پر ابھارا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں بھی اپنا کردار ادا کیا کرتی ہیں اور دشمن ممالک کی ایجنسیاں بھی، جس کی روک تھام کے لیے ریاستیں قانون سازی کرتی ہیں۔


خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

Comments

- Advertisement -