اتوار, جولائی 6, 2025
اشتہار

حیدرآباد دکن:‌ ‘جنوبی ہند کا پاکستان’ جس پر بھارت نے 17 ستمبر کو قبضہ کرلیا

اشتہار

حیرت انگیز

13 ستمبر 1948 کو بھارت نے حیدرآباد دکن پر پولیس ایکشن کی آڑ لے کر اپنی افواج داخل کردی تھیں جس کے پانچ دن بعد نظام حیدرآباد کے کمانڈر اِن چیف سید احمد العیدروس نے باضابطہ ہتھیار ڈال دیے۔ 17 ستمبر کو ہندوستان کی اس مرفّہ الحال ریاست پر بھارت قابض ہو گیا۔

حیدرآباد دکن ہندوستان میں‌ تہذیب و ثقافت کا گہوارہ اور وہ ریاست تھی جس میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل تھا۔ سقوطِ دکن پر تحریروں میں اہلِ قلم نے دکن کو ‘جنوبی ہند کا پاکستان’ بھی لکھا ہے۔ اس ریاست میں مختلف زبانیں بولی جاتی تھیں، لیکن اردو کو 19 ویں صدی کے اواخر میں سرکاری زبان قرار دیا گیا تھا۔

میر عثمان علی خان کو نظام حیدر آباد کہا جاتا تھا جو اپنے دور میں دنیا ایک امیر ترین شخص تھے جن کی سخاوت اور فیاضی بھی مشہور تھی۔ نظام کے پاس زر و جواہرات کے میں ایک ایسا ہیرا بھی تھا جس کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ اسے پیپر ویٹ کے طور استعمال کرتے تھے۔

مؤرخین نے لکھا ہے کہ حیدرآباد پر قبضہ کرنے کے لیے بھارت نے 36 ہزار فوجیوں کو اتارا تھا اور دوسری جانب نظام کے پاس صرف 24 ہزار سپاہی تھے جن میں سے مکمل تربیت یافتہ جوانوں کی تعداد صرف چھے ہزار تھی۔ اس کے علاوہ قاسم رضوی بھی اس ریاست میں تقریباً دو لاکھ رضا کاروں کے کمان دار تھے لیکن یہ سب عام شہری اور غیر تربیت یافتہ لوگ تھے جو صرف نظام کے وفادار اور ریاست کی خودمختاری کے حامی تھے۔

جنوبی ہند کی اس مسلم ریاست پر بھارتی جارحیت اور انضمام کے اعلان کے ساتھ ہی آصف جاہی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا جس کے بعد نظام کی حیثیت ایک گورنر جیسی ہوگئی جو مکمل طور پر بے اختیار تھا۔ ریاست پر بھارت نے یہ حملہ بانی پاکستان محمد علی جناح کی وفات کے بعد کیا تھا جو اسے ہندوستان کے قلب میں مکمل طور پر خود مختار اور آزاد مملکت کی حیثیت سے دیکھنے کے خواہش مند تھے۔

17 ستمبر کو بھارتی جنرل چودھری نے دہلی کو اطلاع دی کہ وہ حیدر آباد پر مکمل طور پر قبضہ کرچکے ہیں اور اب نظام کی فوج یا وفاداروں کی جانب سے مزاحمت کا کوئی امکان نہیں‌ ہے۔ بعد میں ریاست کے ساتویں اور آخری سلطان میر عثمان علی خان کو ریڈیو اسٹیشن پر بھارت سے الحاق کا اعلان کرنا پڑا۔

حیدرآباد دکن میں چھٹے حکم راں اور آخری تاجدار کے دور کو زریں عہد کہا جاتا ہے جس میں ریاست خوش حال اور ہر مذہب کے لوگ امن کے ساتھ رہتے تھے۔ میر عثمان علی خان علم پرور شخصیت کے طور پر بھی مشہور ہیں اور اکثر انھیں سلطان العلوم بھی لکھا گیا ہے جس کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں ہندوستان کے طول و عرض‌ سے علماء اور قابل شخصیات یہاں مختلف مدارس، اسکولوں اور بالخصوص 1918ء میں میر عثمان علی خان کے حکم پر قائم کی گئی جامعہ عثمانیہ میں‌ مختلف علمی و ادبی سرگرمیوں میں مشغول رہے۔ اس جامعہ میں ذریعۂ تعلیم اردو تھا۔ اس کے دارالترجمہ میں علما، فضلا نے کئی کتب کے تراجم کیے اور اردو کو ترقی اور ترویج نصیب ہوئی۔

میر عثمان علی خان وہ شخصیت تھے جنھوں‌ نے کئی مسلم ممالک جن میں عرب سے افریقہ تک کی چھوٹی بڑی ریاستیں‌ شامل ہیں، ان کے والیان کو ضرورت اور تقاضہ کرنے پر نہ صرف مالی امداد دی بلکہ ہر جگہ علمی کام، تعلیمی اور سماجی اداروں کے قیام اور ان کو چلانے کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے۔ پاکستان کے قیام کے بعد میر عثمان علی خان نے پاکستان کو 20 کروڑ روپے کی امداد بھی دی تھی۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں