ڈاکٹر فرمان فتح پوری اردو زبان و ادب کا ایک نہایت معتبر نام اور قد آور شخصیت ہیں جن کی شہرت اور شناخت ایک ماہرِ لسانیات، بلند پایہ نقّاد اور محقّق کے طور پر ہے۔ 3 اگست 2013ء کو ڈاکٹر فرمان فتح پوری اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ وہ کئی کتابوں کے مصنّف تھے اور ان کے مضامین و مقالات اردو زبان و ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کی تاریخِ پیدائش 26 جنوری 1926ء ہے۔ وہ متحدہ ہندوستان کے شہر فتح پور میں پیدا ہوئے اور اس شہر کی نسبت ہمیشہ ان کے نام سے جڑی رہی۔ اُن کا اصل نام سیّد دلدار علی تھا۔ ابتدائی تعلیم گھرپر والد اور چچا سے حاصل کی۔ علاوہ ازیں، قرآن کریم اور فارسی کی ابتدائی تعلیم کے ساتھ مصدرنامہ، گلستان بوستان بھی گھر ہی پر پڑھیں۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ابتدائی تعلیم فتح پور، الہ آباد اور آگرہ سے حاصل کی۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ یہاں کراچی میں سکونت اختیار کی اور تعلیمی سلسلہ جاری رکھتے ہوئے جامعہ کراچی سے اردو ادب میں ایم اے اور بعد میں پی ایچ ڈی کیا۔ بعدازاں اسی مادرِ علمی میں اردو ادب کی تدریس کا آغاز کیا۔
فرمان فتح پوری کا میدان تنقید اور تحقیق تھا اور وہ زبان و بیان کی باریکیوں کے ساتھ علمی و ادبی موضوعات کے بڑے نکتہ بیں تھے۔ انھیں ندرتِ خیال اور نکتہ رسی کے لحاظ سے اردو زبان میں پائے کا نقّاد مانا جاتا ہے۔ ان کی پچاس سے زائد تصانیف ہیں جو اردو زبان و ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں۔ بڑے بڑے ادیب اور ناقد ان کی ادبی خدمات اور کارناموں کے معترف رہے اور انھیں پائے کا نقّاد تسلیم کیا جن کے ہاں موضوعات کا تنوّع پایا جاتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب درس و تدریس کے ساتھ ساتھ نظم و نثر اور ادب کی جملہ اصناف اور متعدد اسالیب پر اپنی مدلّل اور جامع رائے اور تنقید کی وجہ سے ہم عصروں میں ممتاز رہے۔ فرمان فتح پوری نے اردو رباعی کا فنی و تاریخی ارتقا، ہندی اردو تنازع، غالب: شاعرِ امروز و فردا، زبان اور اردو زبان، دریائے عشق اور بحرالمحبّت کا تقابلی مطالعہ اور اردو املا اور رسم الخط اور دیگر عنوانات سے خوب کام کیا۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری تقریباً تین دہائیوں تک اردو لغت بورڈ سے وابستہ رہے اور 2001ء سے 2008ء تک اس ادارے کے صدر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ ان کی کتاب ’اردو ہندی تنازع‘ اس موضوع پر نہایت مستند مانی جاتی ہے۔ اردو لغت کی کئی جلدیں ان کی نگرانی میں مکمل ہوئیں۔ کہتے ہیں کہ ان کا حافظہ نہایت قوی تھا۔ رفتگانِ علم و ادب کے نام اور ان کے کام کی تفصیل انھیں ازبر تھی۔ جامعہ کراچی نے فرمان فتح پوری کو پروفیسر ایمیریٹس بنایا۔ ان کے تحریر کردہ مضامین ایک دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں اور بیش بہا خزانہ ہیں۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری کو حکومتِ پاکستان ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔