کراچی: پاکستان کے پہلے دارالحکومت اور ملک کی معاشی رگ سمجھے جانے والے شہر قائد میں واقع فریئر ہال کی لائبریری حکومت کی عدم دلچپسی کے باعث تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی۔
تفصیلات کے مطابق سندھ کے دوسرے کمشنر سر بارٹل فریئر کے نام سے منسوب فرئیر ہال کی عمارت 1865 میں تعمیر کی گئی جو اب تک اُسی خدوخال میں موجود تو ہے مگر حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے اس کی لائبریری اپنی اجڑنے کی داستان خود بیان کررہی ہے۔
اٹھارہویں صدی میں قائم ہونے والی اس عمارت کو قومی ورثہ قرار دیا گیا، دو سو سال قبل بنائی جانے والی اس عمارت کی تعمیر میں سرکاری دستاویزات کے مطابق ایک لاکھ 80 ہزار روپے کے اخراجات آئے جن میں سے 50 ہزار 200 روپے علم سے دوستی رکھنے والی شخصیات نے ادا کیے۔
فریئر ہال کی تعمیر کے لیے خصوصی لال، پیلے اور کتھائی (براوؤن) پتھراستعمال کیے گئے کیونکہ ان پر رنگ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ پانی چھڑکنے کے بعد یہ بالکل نئے نظر آنے لگتے ہیں۔
چوالیس فٹ بلند عمارت میں پاکستان کے نامور خطاط صادقین نے اپنے فن سے کمرے کی چھتوں پر سورۃ الرحمٰن کی آیات کی کشیدہ کاری کی، حکومت نے اُن کی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے بالائی منزل پر موجود آرٹ گیلری کو 1990 میں صادقین کے نام سے منسوب کردیا۔
میرٹ ہوٹل کے سامنے واقع فریئر ہال میں لیاقت لائبریری، باغ جناح، فیریئر ہال، صادقین آرٹ گیلری اسی جگہ موجود ہے اور تعمیر کیا گیا باغ آج بھی بالکل ویسی کا ویسی موجود ہے، اس عمارت میں جہاں دیگر اہم چیزیں ہیں وہی لائبریری میں رکھی علوم اور فنون کی کثیر تعداد میں کتابیں بھی بہت اہم ہیں۔
لائبریری اور میوزیم عمارت کی نچلی منزل پر واقع تھا جہاں کتاب دوست افراد صاف صوفوں پر بیٹھ کر مطالعہ کرتے تھے، کمرے میں داخل ہونے والی مدھم سی سورج کی روشنی اور کمرے میں اٹھنے والی پرانے اوراق کی خوشبو اس کمرے کی خوبصورت کو چار چاند لگاتی تھی۔
مناسب دیکھ بحال نہ ہونے کی وجہ سے نچلی منزل کی چھت ٹپکنے لگی تو اہم تصانیف خراب ہونے لگیں تو انتظامیہ نے دونوں شعبوں کو محفوظ رکھنے کے لیے بزنس گارڈن منتقل کیا تاہم وہاں بھی صورت حال بالکل تبدیل نہیں ہوئی۔
فریئر ہال میں موجود لائبریری میں موجود خستہ حال اور بوسیدہ کتابیں حکومتی کارکردگی کا حال بیان کرتی ہیں اور دیواروں پر لگی دیمک عدم توجہ پر شادیانے بجاتی نظر آتی ہے۔
کتاب دوست افراد اہم تصانیف کو اپنی آنکھوں سے تباہ ہوتا دیکھ کر انہیں اپنے حساب سے محفوظ کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوپارہے، جس لائبریری میں اخبارات محفوظ ہوتے تھے اب وہاں روزانہ آنے والے اخبارات کا ناغہ ہونے لگا ہے۔
گزشتہ دنوں میئر کراچی نے فریئر ہال کا دورہ کیا اور لائبریری کی دوبارہ سے تعمیرات کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’’لائبریریاں ترقی یافتہ اقوام کی عکاسی کرتی ہیں جلد اس کی رونقیں بحال ہوں گی اور لوگ یہاں سے مستفید بھی ہوسکیں گے۔