روح اور نفس کے معنیٰ ومطالب اور اس کے مظہر سے متعلق اہل الرائے متضاد آراء رکھتے ہیں اور اہل علم اس گتھی کو سلجھانے میں مصروف ہیں تاہم ابھی تک کوئی واضح اور متفقہ تعریف سامنے نہیں آسکی ہے۔
ماہر لسانیات کے نزدیک روح اور نفس ہم پلہ اور ہم مترادف الفاظ ہیں تاہم اسلامی اسکالر کے نزدیک یہ دو الگ چیزیں ہیں، تفصیل میں جائے بغیر اگر چند سطروں میں روح اور نفس کو سمیٹا جائے تو میری ناقص رائے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’روح‘‘ باطنی جسم ہے جس کے افعال کا نام ’’نفس‘‘ ہے۔
اس سلسلے میں ممتاز اسلامی اسکالر ڈاکٹر محمد عامر عبداللہ نے گفتگو کے دوران بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کے بعد اسے خیر اور شر دونوں کے راستے بتادیے جس میں تمیز و تفریق کے لیے اللہ نے انسانی جسم میں عقل (بہ معنیٰ شعور)، قلب(بہ معنیٰ احساس) اور روح( بہ معنیٰ مقصد ومنشاء) کی طرح ’’نفس‘‘ کو بھی ایک مستقل امر کے طور پر پیدا کیا ہے۔
مسجد ابراہیم نارتھ کراچی کے خطیب ہدایت اللہ بیان فرماتے ہیں کہ نفس ایک ہی ہے مگر اس کی صفات مختلف ہیں ان صفات کا اظہار سات طریقوں سے ہوتا ہے اور نفس کی ہر ہر قسم الگ الگ خواص و صفات کی حامل ہوتی ہیں۔
نفس کی سات اقسام ہیں جنکے نام درج ذیل ہیں :
1۔ نفس امارہ
2۔ نفس لوامہ
3۔ نفس ملھمہ
4۔ نفس مطمئنہ
5۔ نفس راضیہ
6۔ نفس مرضیہ
7۔ نفس کاملہ
مولانا احسن اصلاحی تزکیہ نفس اور اصلاح نفس کے حوالے سے کافی شہرت رکھتے ہیں وہ اپنی کتاب تزکیہ نفس میں رقم طراز ہیں کہ ’’نفس کے الگ خواص وصفات ہیں اور یہ الگ اثرات انسانی طبعیت و مزاج، عادات و خصائل اور اخلاق و اعمال سے ظاہر ہوتے ہیں۔‘‘
مضمون کے اس حصے میں آپ نفس کی عادات خبیثہ کو جانیں گے جن سے بچاؤ کا ذریعہ روزہ ہے۔
لوگوں کو جہنم کی آگ سے بچانے والا رب کریم اپنے بندوں کو تزکیہ نفس کی دعوت دیتے ہوئے اپنے آخری کتاب میں فرماتے ہیں کہ
(اور) سدا بہار باغات جن میں نہریں بہہ رہی ہوں گی وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اس شخص کے لئے جزا ہے جس نے اپنا تزکیہ ( خود کو گناہوں سے پاک)کیا۔
(سورہ طٰہ پارہ 20 آیت نمبر76)
ایک اور جگہ بیان ہوتا ہے
:
یقینا فلاح پاگیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا،اور وہ نامراد ہوگا جس نے اسے آلود ہ کیا۔
(سورہ الشمس پارہ 30 آیات 9 اور 10)
یہی مضمون ایک اور آیت میں یوں بیان ہوا ہے
فلاح پاگیا جس نے تزکیہ کیا (پاکیزگی اختیار کی)۔
(سورہ الاعلیٰ پارہ 30 آیت نمبر 16)
نفس امارہ گناہوں پر آمادہ کرتا ہے یہ انسان میں ضعٖف، بخل، شہوت، تکبر، حسد، غصہ اور جہالت پیدا کرتا ہے،جس سے انسان اپنے رب کے بجائے نفسانی خواہشات کا غلام بن جاتا ہے جب کہ نفس کی دو بنیادیں ہیں اول غصہ اور جلد بازی جب کہ دوئم طمع یعنی حرص اور لالچ پے۔
ڈاکٹر عامر عبداللہ فرماتے ہیں کہ انسان کا غصہ جہالت کی وجہ سے ہے اور طمع ،لالچ و حرص کی وجہ سے ہوتا ہے، نفس دو قسم کے افعال سر انجام دیتا ہے ایک معصیت و نافرمانی اور دوسری کینہ، خصلت، تکبر، حسد، بخل، غصہ اور جو باتیں شرعاً اور عقلاً ناپسندیدہ اور بری ہیں۔
روزہ ۔۔۔ تزکیہ نفس کا ذریعہ ہے
حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے ممتاز صوفی بزرگ غلام مصطفیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ کی کریمیت کا یہ عالم ہے کہ اُس نے نہ صرف نفس کی تباہ کاریوں سے آگاہ کیا بلکہ اپنے بندوں کو نفس پر قابو رکھنے کے لیے ایک ماہ کی ٹریننگ دیتا ہے وہ مہینہ رمضان ہے جس میں ایمان اور احتساب کے ساتھ رکھے گئے روزے ،پہلے نفس امارہ کو نفس لوامہ میں تبدیل کرتا ہے جہاں بندہ گناہوں پر ندامت محسوس کرنے لگتا ہے اور بلاآخر نفس مطمئنہ کے درجے پر فائز ہو جاتا ہے جس کے لیے اللہ یوں اعلان فرماتا ہے کہ
يَاأَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةًO
’’اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ آ اس حال میں کہ تو اس سے راضی ہو۔‘‘
الفجر، 89 : 28
روزہ اور روح کی بالیدگی
وَیَسْاٴَلُونَکَ عَنْ الرُّوحِ قُلْ الرُّوحُ مِنْ اٴَمْرِ رَبِّی
”اور پیغمبر یہ آپ سے روح کے بارے میں دریافت کرتے ہیں تو کہہ دیجیئے کہ یہ میرے پروردگار کا ایک امر ہے“۔
روزہ ظاہری اور باطنی گناہوں سے پاک و صاف کر کے بدن اورروح کو پاکیزگی ولطافت سے مزین کرتا ہے جس کے باعث قرب الہی کا حصول ممکن ہو پاتا ہے،یوں تزکیہ نفس کے بعد صحیح معنوں میں ایک باعمل مسلمان بنی نوع انسان کے سامنے قابل تقلید نمونہ بنتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ عبادات و صالحیت، فرائض کی ادائیگی اور حقوق کی تکمیل، اعلی اخلاقی تربیت اور مومنانہ کردار کی جو مشق رمضان مبارک میں ہوتی ہے اس کو عملاً تواتر کے ساتھ آنے والے گیارہ مہینوں سے لیکر ساری زندگی جاری رکھیں تاکہ مقاصد حیات پورے ہو سکیں اور خالق کائنات رب العلمین کے افضال و اکرام کے دائماً مستحق بنے رہیں اور اُخروی نعمتوں سے سرفراز ہو سکیں۔
روزہ اور عصرِ حاضر کے معاشرتی مسائل سے نجات
عصر حاضر کے سلگتے مسائل، اخلاقی انحطاط، صالح اقدار کی پامالی، خود غرضانہ روش اور مادّیت کے پیچھے بھاگتی دنیا کو حق و صداقت، عبادت معبود حقیقی، خدمت خلق اور روحانی قدروں کی اہمیت سے پوری انسانی برادری کو آگاہ کرنا ہر دین پسند، خیر خواہ انسانیت اور باشعور مسلمان پر ضروری ہے اس کے لئے قرآن مجید کی مقدس تعلیمات اور ارشادات نبوی ؐ کو ہر طرح زبان و عمل کے ذریعہ دوسروں تک پہنچانے کا عہد ماہ رمضان کی رواں ایام اور ساعتوں کا پیام ہے۔
روزہ ہی روح کی تطہیر اور نفسانی خواہشوں کو مغلوب کرنے کا نام ہے
طلوع صبح صادق سے غروب آفتاب تک روزہ کا وقت ہے اس دوران کھانا کھانے ،پانی پینے اور جماع سے رکے رہنا فرض ہے اور یہی حقائق نفس پر بھاری ہوتے ہیں اور روح کے لئے تازگی ، لطافت اور بالیدگی کا سبب بنتے ہیں۔
چوں کہ سال کے گیارہ مہینے انسان مرغن غذاؤں اور مقویات سے جسم کو توانا اور نفس کو قوت پہنچاتا رہتا ہے جس کے باعت روح پر اس کا مسلسل دباؤ رہتا ہے اور نفس کا غلبہ قائم و برقرار رہتا ہے لیکن جب ماہ رمضان آتا ہے تو اہل ایمان فرض روزوں کے ذریعہ روح کی تقویت و لطافت کا سامان کرتے ہیں اوقات صوم میں کھانے پینے اور جماع سے اجتناب نفس کے ضعف و ناتوانی کا باعث ہیں جب نفس کمزور ہوتا ہے تو روح کا اس پر غلبہ ہو جاتا ہے جو بندہ کو مائل بہ خیر و صالحیت کرنے کا موجب ہوتا ہے۔
نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں پروفیسر عقیل احمد،پروفیسر غلام مصطفیٰ مرحوم،مولانا امین احسن اصلاحی کی کتب اور لیکچرز سے مدد لی گئی ہے جب کہ ممتاز عالم دین ڈاکٹر عامر عبداللہ محمدی اور خطیب ہدایت اللہ سے کی گئی گفتگو بھی مضمون کا حصہ ہے۔