اسلام آباد : جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ راحیل شریف کی سعودی عسکری اتحاد کی بطور سربراہ تعیناتی پاکستان کے لیے اعزاز ہے، یہ پارلیمنٹ کا مسئلہ نہیں۔
یہ بات انہوں نے پروگرام اعتراض یہ ہے میں شرکت کے دوران میزبان سے گفت گو میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ اگر 40 ممالک کا اتحاد پاکستان کے سپہ سالار کو اپنا سربراہ بنانے پر راضی ہے تو یہ واقعی پاکستان کے لیے اعزاز کی بات ہے۔
اتحاد ی افواج کی سربراہی پرکافی حد تک ایرانی تحفظات دورکئے، یہ پارلیمنٹ کا مسئلہ نہیں، کچھ چیزیں حکومت اپنی صوابدید پر بھی طے کرتی ہے، راحیل شریف کی تقرری کامعاملہ پارلیمنٹ میں لاناضروری نہیں تاہم اگر پارلیمنٹ میں بھی آجائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کا اتفاق رائے پوری قوم کا اتفاق کہلاتا ہے تاہم حکومت کے اپنے بھی کچھ فیصلے ہوتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ ملک میں عسکری رجحانات کورد کردیا ہے، ہم نے اس کوغیرشرعی تک کہہ دیاہے، ہم لوگ عسکری رجحانات کے نظریئے سے لڑنے والے ہیں،عالمی برادری مذہبی لوگوں سےصلح کیلئےتیارنہیں، ساری دنیاایک پیج پر ہونے سے مذہبی جماعتیں محدود ہورہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں سیاسی عمل سے وابستہ ہوں، حکومت کا تصور لیکرچلتا ہوں، میں جمعیت علمائےاسلام کی حیثیت سےسیاست کررہاہوں، 2002میں بھی ہمارےاراکین پارلیمنٹ اقلیت سےتھے، مجھے عوام حکومت بنانےکا موقع دیتے ہیں تو میرے لئےسب برابر ہونگے، میں آنکھیں بند کرکے لڑائی نہیں لڑتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ناموس رسالت کے تحت40سے50مقدمات اقلیتوں کیخلاف ہیں، ناموس رسالت کے تحت 500مقدمات مسلمانوں کیخلاف ہیں، غلط کو ڈنکے کی چوٹ پرغلط کہیں گے، عالمی ایجنڈے کو شکست دے دی ہے۔
فاٹا کو صوبہ بنانے کے حوالے سے مولان فضل الرحمان نے کہا کہ فاٹا سے متعلق وزیراعظم کے اعلانات میں بہت تضادات ہیں، فاٹا اصلاحات کی رپورٹ میں غلطیوں کی خود نشاندہی کی ہے، اس کوصوبہ بنادیا جائے یا اسے کےپی کے میں ضم کردیا جائے، سرتاج عزیزکی رپورٹ پرفاٹا کےعوام اورجرگہ اعتماد نہیں کررہا، وزیراعظم ملک کااسٹیٹس تبدیل نہیں کرسکتے۔
انہوں نے کہا کہ پانامالیکس کے معاملے پرانہوں نے کہا کہ یہ کیس سیاسی طور پراٹھایا گیا ہے، اخلاقی الزامات میں ڈوبے ہوئے ملک پرحکمرانی کی بات کرتے ہیں، عوام نے فیصلہ کرنا ہے کیا پھر کرپٹ لوگوں کو ووٹ دینا ہے؟
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ حسین حقانی کا معاملہ پاناما کیس سے بڑا ہے، ویزوں کےاجراء کےبعد بلیک واٹرکے لوگ پورے ملک میں پھیلے، جب ویزے دیئے جارہے تھےاس وقت بھی ایسی رپورٹس آرہی تھیں، پاکستان ایک نئے اقتصادی دور میں داخل ہوچکا ہے، وزیراعظم سے نظریاتی حوالے سے کوئی جنگ نہیں ہے۔