ملک میں جائیداد کی خرید و فروخت کا کاروبار کرنے والے 42ہزار افراد کے ٹیکس نیٹ سے باہر ہونے کا انکشاف ہوا پے۔
بلال کیانی کی زیرصدارت قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی خزانہ کا اجلاس ہوا جس میں ٹیکس ترمیمی بل غور و خوص کیا گیا۔
قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس کے دوران چیئرمین آباد اور بڑے بلڈرز کے اعتراض پر ایف بی آر چیئرمین راشد لنگڑیال نے کہا کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب بڑھانا صرف تنخواہ دار کی ذمہ داری نہیں۔
گزشتہ سال پاکستان میں 17 لاکھ پراپرٹی ٹرانزیکشن ہوئیں، صرف بارہ لوگوں نے دس ارب سے زائد کی ویلتھ ڈیکلیئر کی۔
اس کے علاوہ جولائی تا دسمبر ساڑھے سات لاکھ افراد نے پراپرٹی ٹرانزیکشن کی، ان میں سے 5لاکھ نے ٹیکس ریٹرن تک نہ بھرے۔
،راشد لنگڑیال کا کہنا تھا کہ ٹاسک فورس پراپرٹی خریداری پر ٹرانزکشنز ٹیکس ریٹ میں کمی کے لئے تجاویز پر کام کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مذکورہ قوانین میں ترامیم بلیک منی روکنے کیلئے ہے، ایک کروڑ روپے مالیت سے زائد کی پراپرٹی خریدنے والوں کو شناختی کارڈ اور ٹرانزیکشن تفصیل دینا ہوگی۔
ممبر آپریشن نے کہا کہ ایف بی آر حکام جائیداد کی خرید و فروخت کا کاروبار کرنے والے 41ہزار800افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں ناکام ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کی استعداد کار اتنی نہیں کہ ہرٹیکس پیئر کا ڈیٹا چیک کرکے نوٹس بھیجے جائیں۔
اس موقع پر چیئرمین آباد عارف حبیب نے کہا کہ ایف بی آر کی نئی ویلیو ایشن کے باعث 60فیصد لوگ ترمیم سے متاثر ہوں گے، ایف بی آر پراپرٹی خریداری کیلئے جس طرح ترامیم کر رہا یہ ڈرافٹ خطرناک ہے، ایف بی آر کو ٹیکس کی مد میں جو پیسہ مل رہا ہے مذکورہ ترمیم کے بعد وہ بھی نکلنے کا خدشہ ہے۔