کراچی: وفاقی اردو یونیورسٹی نے کانووکیشن میں طلبہ کو خالی لفافے پکڑا دیے، جس پر گورنر سندھ نے دل چسپ خطاب میں زبردست تنقید کی۔
گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے آج منگل کو اردو یونیورسٹی کے کانووکیشن سے خطاب میں کہا ’’وفاقی اردو یونیورسٹی کی عمارات کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں، طلبہ کو اسناد کے نام پر جو لفافے دیے جا رہے ہیں وہ بھی خالی ہیں۔‘‘
کامران ٹیسوری نے کہا ’’شاید اسناد پرنٹ ہو کر نہیں آئیں، اس کے پیسے نہیں دیے گئے، اردو یونیورسٹی کو تو وفاقی ’مجبور‘ یونیورسٹی کا نام دیا جانا چاہیے۔‘‘
انھوں نے وفاق پر شدید طنز کرتے ہوئے مزید کہا ’’لگتا ہے یونیورسٹی تب درست ہوگی جب اردو کا نام یونیورسٹی سے ہٹا دیا جائے گا، کئی سالوں سے یونیورسٹی میں تقسیم اسناد نہیں ہوئی، اگر یہ یونیورسٹی لاہور میں ہوتی تو ہر سال تقسیم اسناد ہوتی۔‘‘
گورنر سندھ نے کہا کہ کھنڈرات نما عمارت کو اردو یونیورسٹی کے نام سے پیش کیا جا رہا ہے، جو ڈگریاں یہاں دی گئیں، اس میں بھی کچھ کے لفافے خالی ہیں، ڈگری پرنٹ کروانے کے پیسے یونیورسٹی کے پاس نہیں تھے۔
دل چسپ امر یہ بھی ہے کہ گورنر سندھ نے خطاب کے آغاز میں وفاقی وزیر تعلیم خالد مقبول صدیقی اور وائس ضابطہ خان شنواری سمیت تمام افراد کو سلام پیش کیا، اور پھر کہا اب فیصلہ آپ کریں کہ جو تقریر میں اب یہاں کروں، وہ لکھی ہوئی کروں یا دل سے کروں؟ اس جامعہ میں اساتذہ کی تنخواہیں ہی نہیں ہیں، یہ اردو یونیورسٹی کراچی میں ہے اس لیے اس کا حال اتنا برا ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ کے احکامات کے باوجود جامعات میں تدریسی عمل بحال نہ ہو سکا
انھوں نے کہا جو حالات اردو یونیورسٹی کے ہیں ایسا لگ رہا ہے کچھ عرصے بعد یہ یونیورسٹی سیلانی چلائے گی، پتا نہیں اس مجبور یونیورسٹی کو کہاں لے کر جا رہے ہیں، ایک جماعت نے دعویٰ کیا تھا کہ گورنر ہاؤس کو جامعات میں تبدیل کریں گے، ساڑھے تین سال انھوں نے کچھ نہ کیا۔
واضح رہے کہ وفاقی اردو یونیورسٹی کی 13 سال بعد تقسیم اسناد کی تقریب آج منعقد ہوئی ہے اور یہ یونیورسٹی کی پانچویں سالانہ تقسیم انعامات کی تقرب ہوگی، جس میں 231 مجموعی فارغ التحصیل طلبہ کو ڈگریاں تفویض کی جا رہی ہیں، بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے طلبہ کو 127 خصوصی تمغے عطا کیے جا رہے ہیں، 97 طلبہ کو گولڈ، 18 طلبہ کو سلور، اور 12 طلبہ کانسی کے تمغے دیے جا رہے ہیں۔