نئی دہلی: بھارت سمیت کئی ایشیائی ممالک کے دیہاتوں میں خواتین کا کھیتوں میں کام کرنا ایک معمول کی بات ہے۔ مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی یہ عورتیں مردوں ہی کی طرح سرد و گرم برادشت کرتی اور ان ہی کے جیسی یکساں محنت کرتی ہیں۔
لیکن ان خواتین کاشتکاروں کا ایک پہلو ایسا بھی ہے جسے کوئی نہیں جانتا، یا جانتا بھی ہے تو اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے۔
بھارت میں گنے کے کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین اپنے اہلخانہ کو پالنے کے لیے نہ صرف ان کھیتوں کو جسمانی مشقت اور اپنا خون پسینہ دیتی ہیں، بلکہ زمینداروں کو اپنی قیمتی متاع حیات یعنی عزت بھی دینے پر مجبور ہیں۔
اس بات کا انکشاف اس وقت ہوا جب ممبئی میں خواتین کے لیے کام کرنے والی کچھ تنظیمیں ان خواتین کاشتکاروں کی حالت زار کا جائزہ لینے کے لیے پہنچیں۔
کھیتوں میں کام کرتی یہ خواتین اپنی رضا مندی سے زمینداروں اور اپنے نگرانوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرتی ہیں، لیکن اس ’رضا مندی‘ کے لیے انہیں مجبور کیا جاتا ہے، کبھی تشدد کی صورت اور کبھی معاشی احسانات کے عوض۔
مشکل در مشکل
بھارتی ریاست مغربی مہاراشٹر میں بھی گنے کے کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کاشتکاروں کے لیے اپنے مالکوں اور نگرانوں کی جانب سے جنسی زیادتی اور تشدد ایک عام سی بات ہے۔
بھیودے بھی انہی خواتین میں سے ایک ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایسے ہی ایک زبردستی جسمانی تعلق کے بعد جب وہ حاملہ ہوئیں تو یہ کوئی آسان حمل نہیں تھا۔ انہیں شدید طبی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا جو ان کے نومولود بچے کی موت پر منتج ہوا۔
ڈاکٹر نے انہیں ہسٹرریکٹمی یعنی اپنی بچہ دانی نکلوانے کا مشورہ دیا تاکہ مستقبل میں مزید ایسی تکالیف سے بچا جاسکے۔
اور ایسا مشورہ پانے والی بھیودے پہلی عورت نہیں تھی۔ کھیتوں میں زمینداروں کی ہوس کا نشانہ بنتی تقریباً ہر عورت کو یا تو اپنے خاندان والوں کی جانب سے اس عمل کے لیے مجبور کیا جاتا ہے، یا پھر وہ خود ہی اس عمل سے گزرتی ہے تاکہ اپنی زندگی کو کسی حد تک آسان بنا سکے۔
مزید پڑھیں: صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ
دراصل کھیتوں میں ان خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور تشدد کے واقعات اس قدر عام، اور تسلسل کے ساتھ ہوتے رہتے ہیں کہ انہیں بار بار حمل سے بچنے کے لیے یہی ایک آخری حل نظر آتا ہے۔
یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ وہ بغیر وقفوں کے مستقل کام کرسکیں اور اپنے خاندانوں کا پیٹ پال سکیں۔
ان خواتین کا سروے کرنے والی ممبئی کی ایک تنظیم کے رکن نیرجا بھٹنا گر کا کہنا ہے کہ یہ ایک ناقابل بیان قسم کا تشدد ہے۔ ’یہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے کہ آپ کسی کو اس کے جسم کے کسی حصہ سے اس لیے محروم کردیں، تاکہ وہ ایسی معیشت میں اپنا کردار ادا کرسکے جو اسے ذرہ بھر بھی فائدہ نہیں پہنچا رہی‘۔
خواتین مجبور کیوں ہیں؟
بھارت دنیا کا دوسرا بڑا چینی پیدا کرنے والا ملک ہے۔ اس کاروبار کے لیے بھارت کے طول و عرض پر بے شمار گنے کے کھیت ہیں جن میں کام کرنے کے لیے اس قدر افرادی قوت کی ضرورت ہے کہ نہ صرف مرد، بلکہ خواتین اور بچوں کو بھی اس مشقت میں ڈالا جاتا ہے۔
گنے کے کھیتوں میں کام کرنے کے لیے عموماً میاں بیوی کو رکھا جاتا ہے۔ ان جوڑوں کے ساتھ بچے بھی ہوتے ہیں جو رضا کارانہ طور پر اپنے ماں باپ کا ہاتھ بٹاتے ہیں تاہم معاوضے میں ان کا کوئی حصہ نہیں رکھا جاتا۔
چونکہ ان کھیتوں میں کام کرنے کے لیے صرف جوڑوں کو ہی رکھا جاتا ہے لہٰذا کاشت کاری سے وابستہ خاندان اپنی لڑکیوں کی شادی اس عمر سے پہلے ہی کردیتے ہیں جو حکومت نے قانونی طور پر طے کر رکھی ہے یعنی 18 سال۔
مزید پڑھیں: کم عمری کی شادیاں دنیا کی ترقی کے لیے خطرہ
کھیتوں میں فصل کی کٹائی نومبر سے مئی تک جاری رہتی ہے۔ اس دوران خواتین و بچے قابل استعمال اور ناقابل استعمال گنے کو علیحدہ کرتے ہیں اور یہ عمل صبح 4 بجے شروع ہوجاتا ہے جو بغیر کسی وقفے کے دوپہر ڈھلنے تک جاری رہتا ہے۔
اس کے بعد یہ ان گٹھوں کو اپنی پیٹھ پر ڈھو کر بیل گاڑیوں میں رکھتے ہیں جو انہیں کھینچ کر فیکٹری میں لے جاتے ہیں جہاں انہیں چینی میں تبدیل کرنے کا کام شروع ہوتا ہے۔
یہ مدت کاشت کاروں کے سال بھر کے روزگار کی مدت ہوتی ہے چنانچہ یہ دوسرے گاؤں دیہاتوں سے بھی عارضی ہجرت کر کے کھیتوں میں آبستے ہیں۔ اس دوران نہ تو انہیں جسم کی صفائی یا دیگر ضروریات کے لیے پانی میسر ہوتا ہے، نہ بجلی اور نہ ہی باقاعدہ بیت الخلا قائم کرنے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔
معاوضے کے لیے انہیں درمیان میں موجود ایک شخص سے واسطہ پڑتا ہے۔ 5 سے 6 ماہ کی اس مشقت کے ان سے 50 یا 60 ہزار روپے طے کیے جاتے ہیں، تاہم دینے کے وقت ان کی کچھ رقم روک لی جاتی ہے تاکہ اگلے سال یہ دوبارہ لوٹ کر آئیں۔
خواتین دہری اذیت میں
یہ ایک عام صورتحال ہے، تاہم خواتین اس سے کہیں زیادہ مشکلات کا شکار ہیں جن میں سرفہرست ان سے زیادتی، ہراساں کرنے اور نگرانوں کی جانب سے تشدد کے واقعات شامل ہیں۔
کام کے دوران اگر کوئی کم عمر لڑکی، زبردستی کے تعلق یا کچھ عرصہ قبل ہوئی شادی کے نتیجے میں حاملہ ہوجائے تو سخت محنت اور جسمانی مشقت کے باعث حمل ضائع ہوجاتا ہے۔
مزید پڑھیں: دوران حمل ان عادات سے پرہیز ضروری ہے
بار بار کی جنسی زیادتی کے باعث حمل سے بچنے کے لیے نہ صرف انہیں ہسٹرریکٹمی کا مشورہ دیا جاتا ہے، بلکہ ان کے مردوں کو بھی نس بندی کروانے پر زور دیا جاتا ہے تاکہ یہ خواتین حاملہ ہوئے بغیر زیادہ سے زیادہ کام کرسکیں۔
سماجی رکن بھٹنا گر نے بتایا کہ انہوں نے اس سلسلے میں کچھ ڈاکٹرز سے بات کی جو ان کاشت کار خواتین کی ہسٹرریکٹمی کا عمل انجام دیتے ہیں۔ اس کام کے لیے وہ کم از کم 35 ہزار روپے فیس طلب کرتے ہیں اور یہ ان غریب اور بدحال خاندانوں کو مزید قرض میں دھنسا دیتا ہے۔
وہ کہتے ہیں، ’اس عمل کے لیے عورتوں کو خاندان والوں کی جانب سے مجبور کیا جاتا ہے تاہم آپ خاندان کو الزام نہیں دے سکتے۔ وہ غربت کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کھیتوں میں ان کی عورتوں کے ساتھ کیا حالات پیش آئیں گے اور وہ کسی صورت ان کا تحفظ نہیں کر سکتے۔ لیکن انہیں زندگی گزارنے کے لیے کام کرنا ہے لہٰذا وہ مجبور ہیں‘۔
دوسری جانب خواتین لاعلم ہیں کہ اس سرجری کے بعد بغیر آرام کیے سخت محنت کرنے کا ان کے جسم پر کیا نقصان ہوگا، نہ ہی وہ یہ جانتی ہیں کہ کم عمری میں ہی یہ عمل ان کے جسم پر آگے چل کر کیا خطرناک اثرات مرتب کرے گا۔
مزید پڑھیں: ہر 3 میں سے ایک عورت تشدد کا شکار
سماجی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ جدید دور کی غلامی کی بدترین مثال ہے اور خواتین اس کا زیادہ شکار ہیں۔
زمینداروں اور فیکٹری مالکان کی ہٹ دھرمی
گنا فیکٹریوں کے مالکان اور کارکنان نے اس بات سے انکار کیا کہ کھیتوں میں ایسی کوئی صورتحال موجود ہے۔
مہاراشٹر کو آپریٹو شوگر فیکٹریز فیڈریشن کے وائس چیئرمین کا کہنا ہے کہ ان کے علم میں ایسا کوئی واقعہ نہیں، نہ انہوں نے کبھی ایسا کچھ سنا۔ ’اگر یہ خواتین ایسی شکایت کرتی ہیں، یا وہ اپنے معاوضوں سے خوش نہیں، تو وہ وہاں کام کرنے آتی ہی کیوں ہیں‘۔
ممبئی میں خواتین کے لیے سرگرم عمل ایک غیر ملکی تنظیم کی رکن افلیویا اگنز کا کہنا ہے کہ گو کہ جبری مشقت اور بدسلوکی کے خلاف بھارت میں قوانین موجود ہیں لیکن یہ تمام کاشت کار نچلی ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ اپنی اونچی ذات کے مالکوں سے خوفزدہ ہیں لہٰذا وہ کوئی قدم اٹھانے سے ڈرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ کارکنان متحد ہو کر آواز اٹھائیں تو انہیں کچھ تحفظ مل سکے، لیکن کھیتوں کے مالکان ایسے واقعات کو ہی ماننے سے انکاری ہیں۔ کئی شوگر ملیں سیاستدانوں کی ہیں یا ان ملوں کے مالکان ان سے اچھے تعلقات رکھتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں، ’ان کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ وہ واپس اسی کام پر جانے پر مجبور ہیں جہاں ان کے ساتھ نہایت غیر انسانی اور بدترین سلوک کیا جاتا ہے‘۔