قرۃُ العین حیدر نے بچیوں کے رسالے ”بنات“ سے لکھنا شروع کیا، ان کی پہلی کہانی ”چاکلیٹ کا قلعہ“ بنات میں شایع ہوئی تھی۔ قرۃُ العین حیدر اپنی کزن ڈاکٹر نور افشاں کے ساتھ ماری پور میں رہتی تھیں، جو ان دنوں پاکستان ایئر فورس میں اسکوارڈن لیڈر تھیں۔ میری ان سے پہلی اور آخری ملاقات ڈاکٹر نور افشاں کے گھر پر ہوئی۔
آخری ملاقات ڈاکٹر نور افشاں کے بنگلے واقع بلاک بی نارتھ ناظم آباد میں ہوئی، کوئی سات، آٹھ سال پہلے جب وہ ہندوستان سے آئی تھیں، تو انہوں نے ڈاکٹر جمیل جالبی، مشفق خواجہ اور مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ میں نے بڑے عرصے بعد ان کو دیکھا تھا، وہ ضعیف ہو چکی تھیں، مجھ کو دیکھ کر بڑا افسوس ہوا کہ وہ دائیں ہاتھ سے مفلوج ہوگئی ہیں، جس ہاتھ نے ان کا عمر بھر ساتھ دیا، اس ہی ہاتھ سے انہوں نے اپنے ضخیم ناول ”آگ کا دریا“ اور “سفینۂ غم دل“ اور بے شمار کہانیاں تحریر کیں۔
مجھے اس کا علم اس وقت ہوا، جب میں نے انہیں ایک قلم پیش کرتے ہوئے کہا ”عینی بہن! ہمارے اور آپ کے خاندانی تعلقات 100 سال کے قریب ہوگئے ہیں، اس موقع پر میں ایک قلم آپ کو پیش کرنا چاہتا ہوں، جو ان تعلقات کی نشانی ہے۔“ انہوں نے بڑی خوشی سے قلم قبول کیا، اور خاص طور سے ہندوستان میں شروع ہونے والی تحریکِ نسواں میں ”عصمت“ اور ”تہذیبِ نسواں“ کا ذکر کیا، کہنے لگیں کہ پروفیسر وقار عظیم نے مردانہ ادب اور نسوانی ادب اس طرح بانٹ دیا ہے، جیسے ٹرین میں مردانہ ڈبے اور زنانہ ڈبے ہوتے ہیں۔
باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا کہ جب وہ عمرہ کرنے گئی تھیں، تو انہوں نے خانۂ کعبہ کے کئی چکر لگائے، لیکن ’حجرِ اسود‘ تک رسائی نہ ہو سکی کہ اسے چوم سکیں، انہیں اپنی آرزو پوری ہوتی نظر نہیں آرہی تھی کہ یک لخت انہیں ایک کالی لمبی چوڑی عورت نے پورا اٹھا کر حجرِ اسود کے قریب کر دیا کہ وہ اسے چوم سکیں اور اس طرح ان کی یہ دیرینہ خواہش پوری ہوگئی۔
ڈاکٹر نور افشاں کے مطابق قرۃُ العین حیدر کی تحریریں بکھری رہتی تھیں۔ کبھی وہ بیٹھے بیٹھے ریپر پر، کسی بچّے کی کاپی پر، لفافے کے پیچھے کہیں بھی، کسی وقت بھی لکھنا شروع کر دیتی تھیں اور تیزی سے لکھتی تھیں۔ پھر انہیں یک جا کر کے ایک ترتیب اور تسلسل سے ’فیئر‘ کر لیتی تھیں۔ ان کے انتقال پر ان کے چچا زاد بھائی اور الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس زوار حسین کی نواسی نے قرۃُ العین کی ساری چیزیں سمیٹ کر ’جامعہ ملیہ‘ میں ان کے نام سے میوزیم میں رکھوا دیں۔
(مصنّف حاذق الخیری، ماخذ خود نوشت ’جاگتے لمحے‘)