مادھوری ڈکشٹ نے شہرت اور مقبولیت کے کئی برسوں پر محیط اپنے سفر میں بلاشبہ کروڑوں دلوں پر راج کیا۔ بہترین اداکاری اور شان دار رقص کے بل بوتے پر مادھوری ایک عرصہ تک اسکرین پر چھائی رہی ہیں۔
آج بھی بولی وڈ فلم اسٹار کا جادو برقرار ہے۔ اداکارہ کی شہرت کا سفر 1990ء کی دہائی میں شروع ہوا تھا، جس میں مادھوری نے اپنے وقت کے لیجنڈ اداکاروں دلیپ کمار، جتیندر، امیتابھ بچن، ونود کھنہ کے ساتھ کام کیا اور بیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں کے مقبول ترین ہیرو عامر خان، سلمان خاں، شاہ رخ خاں، انیل کپور، سنجے دت، متھن چکرورتی اور دیگر کے ساتھ ان کی جوڑی بہت پسند کی گئی۔
یہاں ہم اپنے وقت کے معروف و مقبول فلمی رسالے "شمع” کے 1990ء کے ایک شمارے میں مادھوری ڈکشٹ کے اپنے ساتھی مرد اداکاروں سے متعلق تاثرات شایع ہوئے تھے جس میں سے فلم اسٹار سنجے دت اور گوندا کے بارے میں ہم مادھوری ڈکشٹ کے خیالات یہاں نقل کررہے ہیں۔
سنجے دت
سنجے بابا کو میں شرارتوں کی پوٹ کہتی ہوں۔ ہنسنے ہنسانے سے وہ کسی وقت بھی باز نہیں رہ سکتا۔ اس کی موجودگی میں ساتھی ستارے اپنی ہنسی پر قابو پا ہی نہیں سکتے۔ وہ خود خوشی کے پَروں پر اڑ رہا ہو یا کسی غم کے دور سے گزر رہا ہو۔ اس کی بشاشت کسی بھی حال میں اس کا ساتھ نہیں چھوڑتی۔ سنجو کے ساتھ بمبئی، مدراس، حیدرآباد، کہیں بھی سیٹ پر یا لوکیشن پر میری شوٹنگ ہوتی ہے تو وہ مجھے دل کھول کر قہقہے لگانے کے مواقع فراہم کر دیتا ہے۔ شکار اس کا پسندیدہ مشغلہ ہے اور اپنے شکار کے واقعات وہ اس انداز سے سناتا ہے کہ مزہ آ جاتا ہے۔ حوصلے کا یہ عالم ہے کہ جب اس کا کیریئر اسے ڈانوا ڈول ہوتا دکھائی دے رہا تھا تو بھی مسکراہٹ ہر آن اس کے ہونٹوں پر کھیلتی رہتی تھی۔
گووندا
سنجو کی طرح گووندا بھی ہمیشہ ہسنتا، مسکراتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کے اندر برتری کا احساس نام کو بھی نہیں۔ انا اسے کبھی پریشان نہیں کرتی۔ زندگی کی حرارت اس کی رگ رگ میں رچی ہوئی ہے۔ اتنا چلبلا ہے کہ سیٹ پر ہر پل ایک سرے سے دوسرے سرے تک لپکتا نظر آئے گا۔ خوب قہقہے لگاتا ہے، خوب زندگی کا لطف اٹھاتا ہے۔ بہت اچھا ڈانسر ہے اس سے بھی بڑھ کر ایک اچھا انسان ، ایک چاہنے والا شوہر، ایک جان چھڑکنے والا باپ۔ پہلے دن جب میں ، ‘پاپ کا انت’ کے لئے اس کے ساتھ شوٹنگ کرنے کی غرض سے پہنچی تو دل ہی دل میں کافی ڈر رہی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ میں نے فلم ‘سدا سہاگن’ میں اس کے ساتھ کام کرنے کی ٹی راما راؤ کی آفر نامنظور کر دی تھی اور اس واقعہ کے بعد پہلی مرتبہ اس کا اور میرا آمنا سامنا ہو رہا تھا۔ رسالوں، اخباروں نے اس واقعہ کو اس طرح اچھالا تھا کہ رائی کا پربت بنا دیا تھا، اور مجھے ویمپ کا درجہ دے ڈالا تھا۔ لیکن پاپ کا انت کے سیٹ پر گووندا کے رویہ میں رنجش کی کوئی جھلک نہ تھی۔ وہ بہت تپاک سے ملا اور اس طرح میری ساری بوکھلاہٹ دور ہو گئی۔ اس نے مجھ سے یہ کہا کہ اگر میری جگہ وہ ہوتا تو کسی آفر کے پرکشش نہ ہونے کی صورت میں وہ بھی صاف انکار کر دیتا۔ میں نے بھی اسے بتا دیا کہ اگر میں نے اس فلم میں کام کرنا قبول نہیں کیا تھا تو اس کا سبب رول کا غیر اہم ہونا تھا۔ گووندا کے خلاف میرے دل میں کوئی جذبہ نہ تھا۔ بعد میں یہ رول انورادھا پٹیل نے کیا اور دیکھنے والوں نے دیکھ ہی لیا ہوگا کہ یہ رول نہ ہونے کے برابر تھا۔