شوکت کیفی ایک روشن خیال خاتون تھیں جنھیں فلم اور تھیٹر کی مایہ ناز آرٹسٹ کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ شوکت کیفی کو مشہور فلم ’گرم ہوا‘، ’امراؤ جان‘ اور فلم ’بازار‘ میں ان کی بہترین اداکاری کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔
اداکارہ شوکت کیفی اردو زبان کے معروف شاعر کیفی اعظمی کی رفیقِ حیات تھیں۔ ان کی بیٹی شبانہ اعظمی بھی بھارت میں خاص طور پر فیچر فلموں میں اپنی لاجواب اداکاری کے سبب پہچانی جاتی ہیں۔
شوکت کیفی 22 نومبر 2019ء کو ممبئی میں جوہو میں واقع اپنے گھر میں انتقال کر گئی تھیں۔ آج ان کی برسی ہے۔ وہ طویل عرصے سے علیل تھیں۔ بھارتی اداکارہ شوکت کیفی نے ریاست حیدر آباد دکن میں ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جو نہ صرف شعر و ادب کا قدر دان تھا بلکہ انتہائی امیر اور مہذب تصور کیا جاتا تھا۔ شوکت کیفی نے محبت کی شادی کی تھی۔ وہ ایک پروقار اور جاذبِ نظر خاتون تھیں۔ شوکت کیفی بتاتی تھیں کہ وہ بناؤ سنگھار اور لباس پر دل کھول کر خرچ کرتی تھیں، اور ہر محفل میں اپنی پُرکشش شخصیت کی بنا پر مرکزِ نگاہ بن جاتی تھیں۔ ادھر کیفی صاحب جن کی فلمی شاعری اور مکالمے بھی ہندوستان بھر میں مقبول تھے،
مردانہ وجاہت کا پیکر تھے۔ وہ مشاعرے میں اشعار پڑھتے تو ان کا اندازِ بیان دلوں میں گھر کر لیتا۔
اپنے عشق اور شادی سے متعلق شوکت کیفی بتاتی تھیں کہ جب گھر والوں کو ان کی اس محبت کا علم ہوا تو ہنگامہ برپا ہو گیا۔ وہ ایک خوش حال گھرانے کی لڑکی تھیں اور والد کا کہنا تھا کہ ’تم ایک شاہانہ زندگی گزارنے کی عادی ہو جب کہ کیفی تو صرف ایک شاعر ہیں جو صرف 45 روپے کماتے ہیں، جس میں تمہارا گزارا ناممکن ہے۔‘ مگر شوکت کیفی نے گھر والوں سے بغاوت کی۔ گھر والوں کے انکار کے بعد ایک روز انھیں کیفی صاحب کا ایک خط ملا جو انھوں نے اپنے خون سے لکھا تھا۔ شوکت کیفی کے مطابق وہ بہت ڈر گئیں مگر پھر خط والد کے سامنے رکھا گیا تو وہ خوب ہنسے اور کہا کہ ’دیکھو بیٹا یہ شاعر لوگ بہت چالاک ہوتے ہیں۔ ظاہر یہ کرتے ہیں کہ جیسے بہت تکلیف میں ہیں۔ اپنا ہاتھ کاٹ کر خط لکھ رہے ہیں جب کہ حقیقت میں درخت کے نیچے لیٹ کر ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں کھاتے ہوئے بکرے کے خون میں قلم ڈبو کر خط لکھتے ہیں۔‘ لیکن شوکت صاحبہ کی ضد کے آگے گھر والوں نے بالآخر ہتھیار ڈال دیے۔ شوکت کیفی اعظمی بن کر وہ سسرال چلی گئیں اور ساری زندگی اپنا رشتہ نبھایا۔ کیفی اعظمی ان سے پہلے انتقال کرچکے تھے۔ شوکت کیفی نے 91 سال کی عمر پائی۔
شوکت کیفی نے اپنی یادوں پر مشتمل ایک کتاب میں بڑا دل چسپ واقعہ لکھا ہے، ملاحظہ کیجیے۔
جب میری عمر تیرہ سال کی تھی اور میں چھٹی جماعت میں پڑھتی تھی، حیدرآباد میں حالی پیسہ چلتا تھا۔ چھے پیسے کا ایک آنہ ہوتا تھا۔ ہندوستان کے دیگر حصّوں میں کلدار سکّے کا رواج تھا جہاں چار پیسوں کا ایک آنہ ہوتا تھا۔ اسی طرح حیدرآباد میں مہینوں کے نام بھی الگ طرح کے ہوا کرتے تھے مثلاً: آذر، دئے، بہمن، اسفندار، فروردی، ارضی، بہشت، خور داد، تیر، امرداد، شہر ور، مہر، آبان۔
مجھے دوپٹے رنگنے اور چُننے کا بے پناہ شوق تھا۔ میں بڑی آسانی سے اپنے کرتے کے رنگوں اور ڈیزائنوں کو اپنے دوپٹے پر اتار لیا کرتی تھی۔ مجھ میں یہ قدرتی دین تھی کہ میں کوئی سا بھی رنگ بڑی آسانی سے دو تین رنگوں کو ملا کر بنا لیا کرتی تھی۔ میرا یہ شوق دیکھ کر میری ماں نے مجھے ایک تخت دے دیا تھا۔ رنگوں کا ڈبہ، برش، گوند گویا ہر وہ چیز جس کی مجھے رنگنے میں ضرورت محسوس ہوتی تھی منگوا دیا کرتی تھیں۔
حیدرآباد کی ایک خوبی یہ تھی کہ نظام نے حیدرآباد میں اردو کی بہت خدمت کی تھی۔ ایک تو عثمانیہ یونیورسٹی قائم کی۔ ہر اسکول میں اردو لازمی قرار دی گئی تھی۔ حتّٰی کہ سرکاری زبان بھی اردو ہی ہوا کرتی تھی۔ حیدرآباد میں رنگوں کے نام انگریزی میں نہیں لیے جاتے تھے۔ اردو میں ان کے اپنے خوب صورت نام ہوتے تھے مثلاً: زعفرانی، کاسنی، پیازی ، کتھئی، اودا، ترئی کے پھول کا رنگ، سبز رنگ، موتیا کا رنگ، آسمانی، سرمئی، شفتالو، کاہی، عنابی، لال رنگ، مور کنٹھی کا رنگ، بیگنی، صندلی۔ تمام نام اب تو مجھے پوری طرح یاد بھی نہیں ہیں۔ میرے دوپٹے اس قدر خوب صورت رنگوں کے ہوتے تھے کہ اسکول میں لڑکیاں میری کلاس میں جھانک جھانک کر دیکھتی تھیں کہ آج میں نے کون سے رنگ کا دوپٹہ اوڑھا ہے۔