کہا جاتا ہے کہ دنیا کی ہر زبان کے ادب بالخصوص اردو ادب میں عورت کے ساتھ ادیب اور شاعر بڑا ظلم کرتے ہیں۔ اس کی وہ درگت بناتے ہیں کہ عورت کے سوائے دنیا میں کوئی مخلوق مظلوم نظر نہیں آتی۔
میں جیسے جیسے دنیا کے ہر ادب بالخصوص اردو ادب کا گہرا مطالعہ کرتا گیا، اس کہاوت پر ایمان لاتا گیا لیکن جس دن میں نے پہلی بار فلمی دنیا میں قدم رکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ ادب کی اس مظلوم عورت سے بھی زیادہ مظلوم ایک مخلوق اس دنیا میں موجود ہے اور وہ ہے فلمی مخلوق، یعنی فلم کے ہیرو، ہیروئن، ولن اور دوسرے فلمی کردار اور ان میں بھی ادب کی طرح ہیروئن ہی سب سے زیادہ مظلوم ہے۔
آپ اور ہم تو فلمی عورت کو دیکھ کر صرف آنکھیں سینک لیتے ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں کرتے لیکن آپ کو یہ معلوم نہیں کہ اسی پردۂ سیمیں کے پیچھے ایسی فلمی عورت کے ساتھ فلمی کہانی نویس مکالمہ نگار، فوٹو گرافر، میک اپ ماسٹر، میوزک ڈائریکٹر، ڈانس انسٹرکٹر، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کہانی کے آغاز سے کہانی کے اختتام تک کیسا بُرا سلوک کرتے ہیں اور اس بے چاری کو ان کے کیسے کیسے مظالم کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ اس سلسلہ میں میرا پہلا تجربہ بڑا دل چسپ ہے۔
بمبئی میں ایک فلم کمپنی نے ایک فلم بنانے کا اعلان کیا۔ اس کی فلمی کہانی بھی کسی منشی سے لکھوا لی لیکن ایک دن مجھے اس فلم کمپنی کے پروڈیوسر کا خط ملا کہ میں ان سے دفتر کے اوقات میں فلاں تاریخ کو ملوں۔
چنانچہ میں فلاں تاریخ کو اس دفتر میں پہنچ گیا۔ تعارف کے بعد فلم پروڈیوسر نے کہا،
’’ابی سالا ابرام بھائی! ہم آپ کو اس لیے تکلیپھ دیا کہ سالا ہمارا ہیروئین پانچویں سین میں پھنسیلا ہے اس کو بھار نکالنا ہے۔‘‘
میں نے دل ہی دل میں کہا، واہ میاں ابراہیم جلیس، خدا نے بھی کیا دن دکھایا ہے، کیا خدا نے اسی لیے پیدا کیا ہے کہ پھنسی ہوئی ہیروئنوں کو باہر نکالا کرو۔
میں نے پروڈیوسر سے کہا، ’’مجھے ذرا کہانی دکھائیے۔ میں کوشش کرتا ہوں۔‘‘
میں نے کہانی پڑھی جہاں ہیروئن پھنسی ہوئی تھی، وہ منظر یہ تھا۔
مال دار ولن (یعنی رقیب) نے ہیروئن کے غریب باپ کو کبھی پانچ سو روپے قرض دیے تھے، مدّت گزر گئی، ہیروئن کے باپ نے قرض ادا نہیں کیا تھا، اصل اور سود ملا کر پانچ سو روپے دو ہزار بن گئے تھے۔ ہیروئن بڑی خوب صورت تھی اور مال دار ولن اس کے باپ کا قرض اس شرط پر معاف کرنا چاہتا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کا بیاہ ولن سے کر دے، لیکن ہیروئن اپنے جیسے غریب خوب صورت نوجوان لڑکے سے پیار کرتی تھی، اس کے علاوہ مال دار ولن پچاس پچپن برس کا بوڑھا نہایت بدشکل اور کانا تھا۔ اس لیے نہ صرف ہیروئن بلکہ اس کے غریب اور خوددار باپ نے بھی یہ رشتہ ٹھکرا دیا تھا۔ اس لیے مال دار ولن نے ہیروئن کو قرض کے عوض زبردستی حاصل کر کے اپنے گھر میں قید رکھا تھا۔ اب اسی ہیروئن کو دولت مند ولن کی قید سے آزاد کرانا تھا۔
میں نے فلم پروڈیوسر کو رائے دی۔ اس موقع پر آپ فلم کے ہیرو سے کام لے سکتے ہیں، وہی اس کو اس قید سے آزاد کرا سکتا ہے۔
پروڈیوسر نے کہا،’’ہم سالا بھی یہی منگتا تھا لیکن مُصیبت یہ ہوگئی ہے کہ پچھلے سین میں ولن نے ہیرو کو اپنے نوکروں سے خوب پٹوایا ہے اور وہ سالا اسپتال میں پڑا ہے۔‘‘
میں نے کہا، ’’اچھا تو پھر ایسا کرتے ہیں ولن کے گھر میں کوئی بوڑھی عورت نوکر رکھواؤ، اس سے آپ کا کچھ نہیں خرچ ہوگا۔ یہ فلمی کہانی ہے اس لیے تنخواہ کا کوئی سوال نہیں۔‘‘
پروڈیوسر بولا، ’’اپن سالا ایسا بھی کیا لیکن ولن کو کچھ سک ہوا تو اُس نے نوکرانی کو بھی گھر سے نکال دیا۔‘‘
میں نے سوچتے ہوئے کہا، ’’پھر تو بڑی مصیبت ہے۔‘‘
پروڈیوسر بولا، ’’مصیبت تو ہے پر اُس کو نکالنا ضرور ہے، ورنہ سالا اسٹوری آگے نہیں بڑھیں گا۔‘‘
میں نے جل کر پوچھا، ’’لیکن تم نے اسے گرفتار کیوں نہیں کرایا، ولن کے ہتھے چڑھنے سے پہلے ہی ہیرو کے ساتھ کہیں بھگا کیوں نہیں دیا؟ یہ کوئی سچ مچ کی زندگی تو نہیں، فلمی کہانی ہے۔ اس میں سب کچھ کیا جا سکتا ہے۔‘‘
پروڈیوسر بولا، ’’جو ہوگیا سو ہوگیا، اب بولو ہیروئن کو کس طراں آجاد (آزاد) کیا جائے؟‘‘
مجھے غصّہ آیا، ’’تو پھر فلم ختم ہونے تک پڑی رہنے دو سالی کو اس قید میں۔‘‘
پروڈیوسر بولا، ’’واہ منسی ابرام بھائی۔ یہ کیا بات کرتا ہے سالا تم۔ پبلک سالا ہیروئن کو دیکھنا منگتا ہے اور تم بولتا ہے کہ اس کو فلم میں قید رکھو۔ یہ نہیں ہوسکتا اور ترکیب بتاؤ۔‘‘
میں نے کہا، ’’اچھا تو سنو۔ اس کی رہائی کی صرف ایک ترکیب ہے۔ کہانی میں یہ ہے کہ ولن ہر روز ایک بار ہیروئن سے ملتا ہے اور پوچھتا ہے کہ وہ اگر شادی کے لیے تیار ہے تو وہ اس کو ابھی قید سے نکال لے گا۔ ہیروئن کو اب یہ چاہیے کہ وہ اس سے شادی کا بہانہ کرلے اور آزاد ہو کر اس کے مکان میں رہے اور کسی دن موقع پا کر بھاگ نکلے۔‘‘
پروڈیوسر نے اُچھل کر کہا، ’’ہاں یہ ترکیب ٹھیک ہے، چلو فر جلدی اُس کو آجاد کراؤ۔‘‘
میں نے فونٹن پن نکالا اور ہیروئن کو آجاد کرا دیا، اس کے بعد پروڈیوسر نے پوچھا، ’’اب کیا ہوگا؟‘‘
میں نے بتایا، اب ولن شادی کی تیاریاں کرے گا اور عین شادی کے دن ہیروئن کو ولن کے گھر سے بھگا دو۔ پروڈیوسر نے پوچھا،
’’بھگا کر کہاں لے جائیں؟‘‘
میں نے جی کڑا کر کے جواب دیا، ’’اپنے گھر میں ڈال لو۔‘‘
پروڈیوسر زور سے قہقہہ لگا کر ہنس پڑا اور بولا، ’’اجی اس سے تو ہمیں پیسہ کمانا ہے، اگر اپنے گھر میں ڈال لوں تو کمانے کے بجائے اُلٹا خرچ کرنا پڑے گا۔‘‘
میں نے کہا، ’’سیٹھ جی اس کی فکر کیا کرتے ہو کہ وہ کہاں جائے گی؟ پہلے اسے ولن کے گھر سے بھگاؤ تو سہی۔‘‘
چنانچہ عین شادی کے دن ہیروئن کو ولن کے گھر سے بھگا دیا گیا اور ہیروئن سیدھا اسپتال پہنچی جہاں ہیرو زخمی پڑا ہے۔
پروڈیوسر نے پوچھا، ’’لیکن اس کے رہنے ٹھہرنے کھانے پینے کا کیا بندوبست ہوگا کیونکہ اسپتال میں ٹھہرنے کی تو اجازت نہیں ہوتی۔‘‘
میں نے کہا، ’’سیٹھ جی! فلمی کردار کے بارے میں کچھ یہ نہ سوچو کہ اس کے کھانے پینے کا کیا انتظام ہو گا۔ فلمی کردار کو نہ بھوک لگتی ہے نہ پیاس اور اگر لگتی ہے تو صرف محبت کی بھوک پیاس۔ رہا ٹھہرنے کا بندوبست تو سیٹھ جی فلمی ہیروئن اتنی خوب صورت ہوتی ہے کہ اگر وہ پردۂ سیمیں سے اس طرح اکیلی باہر نکل آئے تو اس کو اپنے گھر ٹھہرانے کے لیے ساری بمبئی کے لوگ ایک دوسرے سے لڑ پڑیں۔ اب فی الحال تم اس کو اسپتال کے کنوارے ڈاکٹر کے گھر ٹھہراؤ۔‘‘
پروڈیوسر نے کہا، ’’کیوں نہ کسی شادی شدہ ڈاکٹر کے گھر ٹھہرایا جائے؟ یہ کنوارا ڈاکٹر تو اس کو اکیلی دیکھ کر کہیں کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کر بیٹھے۔‘‘
میں نے جواب دیا، ’’سیٹھ صاحب! آپ بھول رہے ہیں کہ کوئی شادہ شدہ مرد ایک اجنبی اکیلی عورت کو اپنے گھر نہیں ٹھہرا سکتا۔ اس کی بیوی یا تو طلاق لے لے گی یا پھر اس کی وہ مرمت کرے گی کہ وہ زندگی بھر یاد کرے گا۔ صرف کنوارا ہی اکیلی عورت کو سہارا دے سکتا ہے اور وہ چھیڑے گا کس طرح میں بیٹھا ہوں، آپ بیٹھے ہیں، ڈائریکٹر صاحب بیٹھے ہیں۔ ہاں اگر ہم تینوں یہ فیصلہ کر لیں کہ ہیروئن کو چِھڑوایا جائے تب کہیں وہ چھیڑنے کی جرأت کرسکتا ہے۔‘‘
خیر صاحب! ہیروئن کو کنوارے ڈاکٹر کے پاس ٹھہرایا گیا۔ کنوارے ڈاکٹر نے اپنے گھر ہیروئن کو پناہ دینے کے بعد اس کا حسن وجمال دیکھا تو فوراً عاشق ہوگیا۔ اس وقت میری، پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کی خواہش بھی یہی تھی کہ کنوارے ڈاکٹر کو ہیروئن پر عاشق کرایا جائے۔ اس سے کہانی میں ذرا لطف پیدا ہوسکتا تھا، چنانچہ کنوارا ڈاکٹر ہیروئن سے کہتا ہے،
’’تم جس کے عشق میں مبتلا ہو فضول مبتلا ہو، اس مریض کی نہ صرف دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئی ہیں بلکہ اب وہ محبت کے بعد والے معاملے کے قابل بھی نہیں رہا۔‘‘
یہ خبر سنتے ہی ہیروئن بے ہوش ہو کر گر پڑی، حالانکہ ڈائریکٹر یہ چاہتا تھا کہ وہ ایک دم پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دے، لیکن میں اور پروڈیوسر اس معاملے میں متفق الرّائے تھے کہ ہیروئن کو بے ہوش کرایا جائے۔ اسے جب ہوش آتا ہے تو پھر وہ ڈاکٹر سے شادی کر لیتی ہے۔ اس کے اصلی عاشق کو جب یہ خبر ملتی ہے تو وہ اپنی محبوبہ کو بلا کر اصلی حقیقتِ حال سے واقف کراتا ہے یعنی اُسے بتاتا ہے کہ ڈاکٹر نے اسے غلط باور کرایا ہے، وہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہے۔ ہیروئن دھاڑیں مارمار کر روتی ہے اور پچھتاتی ہے۔ ہیرو اس پر ایک درد بھرا گیت گاتا ہے جس کے بول ہیں؛
اب پچھتائے کیا ہووت ہے جب چڑا چُگ گیا کھیت….
اور اس کے بعد وہ خودکشی کرلیتا ہے لیکن ہیروئن بڑی غمگین ہے، وِلن کی قید سے آزاد ہونے کے باوجود وہ اپنے آپ کو آزاد نہیں سمجھتی۔
اس کے بعد ہیروئن ہر روز شام کے ساڑھے پانچ بجے رات کے ساڑھے آٹھ بجے اور ساڑھے گیارہ بجے تک غمگین رہتی ہے اور چھ سات ہفتوں بعد وہ ازسرِ نو کنواری بن کر دلیپ کمار سے پینگیں بڑھانے لگتی ہے اور جب دوبارہ وہ ولن کے چنگل میں پھنس جاتی ہے تو پروڈیوسر لوگ سالا منسی ابرام بھائی کی تلاش شروع کر دیتے ہیں۔ اب سالا منسی ابرام بھائی یہ سوچ رہا ہے کہ فلموں کا دی اینڈ ہو یا نہ ہو اس کا اپنا دی اینڈ ہوجائے تو اچھا ہے، کیونکہ اس طرح ہیروئنوں کو رقیبوں کے پنجوں سے چھڑاتے چھڑاتے وہ تنگ آگیا ہے۔
(ممتاز ادیب، صحافی اور مزاح نگار ابراہیم جلیس کے قلم سے)