اشتہار

ڈبلیو زیڈ احمد کی ’روحی‘ پر سنسر بورڈ کا اعتراض کیا تھا؟

اشتہار

حیرت انگیز

آج کے دور میں فلم سازی اور بڑے پردے پر پیش کاری کا طریقہ ہی نہیں تبدیل نہیں ہوا، موضوعات اور فلم بینوں کے بدلتے ہوئے رجحانات نے کہانیوں کو بھی بدل ڈالا ہے، لیکن پاکستان میں‌ نصف صدی قبل بھی رومانوی اور گنڈاسے والی فلمیں اپنے مخصوص انجام کے ساتھ شائقین کی توجہ حاصل کرتی تھیں۔ اسی زمانے میں ڈبلیو زیڈ احمد نے فلم ساز اور ہدایت کار کی حیثیت سے اپنے کمالِ فن اور فنی مہارت کے سبب بڑا نام پایا تھا۔

پاکستان میں نئی نسل ڈبلیو زیڈ احمد سے واقف نہیں ہوگی، لیکن ساٹھ سال سے زائد عمر کے وہ لوگ جو سنیما کے دیوانے رہے ہیں، ان کے ذہن میں شاید یہ نام کہیں محفوظ ہو۔ اگر اِنھوں نے فلم ’وعدہ‘ دیکھی ہے تو یہ 1956ء میں ریلیز ہونے والی ڈبلیو زیڈ احمد کی آخری فلم تھی۔ یہ ایک عام رومانوی فلم تھی جس کا ہیرو زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتا ہوا کام یابی کی منازل طے کر کے جب اپنی محبوب کو اپنانے کے قابل ہوتا ہے تو المیہ جنم لیتا ہے اور دو دل کبھی ایک نہیں‌ ہو پاتے۔ ڈبلیو زیڈ احمد نے فلم سازی اور ہدایت کاری کو ایک چیلنج کے طور پر قبول کیا تھا اور ان کی یہ فلم کام یاب رہی تھی۔

ڈبلیو زیڈ احمد طویل عرصہ علیل رہنے کے بعد 15 اپریل 2007ء کو انتقال کرگئے تھے۔ ان کا اصل نام وحید الدّین ضیا تھا اور اسی مناسبت سے انھیں ڈبلیو زیڈ احمد لکھا جانے لگا تھا۔ یہی مختصر نام فلم نگری اور فلمی صحافت میں‌ ان کی شناخت کے لیے لکھا اور پکارا گیا۔ بوقتِ وفات اُن کی عمر 92 سال تھی۔ آخری برسوں میں ان کی یادداشت ختم ہوچکی تھی اور کچھ عرصے سے ڈبلیو زیڈ احمد مستقل نیم بے ہوشی کی حالت میں تھے۔

- Advertisement -

پاکستانی فلم انڈسٹری کی اس نام ور شخصیت نے گودھرا (بھارت) میں 20 دسمبر 1915ء کو آنکھ کھولی تھی۔ ڈبلیو زیڈ احمد کے والد سرکاری ملازمت کے سلسلے میں وسطی اور جنوبی ہند کے مختلف اضلاع میں قیام پذیر رہے۔ وحید الدّین ضیا نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم مکمل کی۔ 1936ء میں نوجوان ڈبلیو زیڈ احمد نے فلم نگری میں قدم رکھنے کی کوششیں شروع کردی تھیں۔ انھوں نے فلم کے شعبے میں کام کی ابتدا 1939 میں کی تھی اور پہلی مرتبہ اسکرپٹ رائٹر کے طور پر کام کیا، تاہم انھیں محسوس ہوا کہ وہ اچھے منظر نویس نہیں‌ ہیں، اور یہ ایک مشکل کام ہے، سو، انھوں نے ایک مختلف قدم اٹھایا اور اگلے تین سال کے اندر پونا اور مدراس میں اپنے اسٹوڈیو تعمیر کرکے فلم سازی کا آغاز کردیا تھا۔

ڈبلیو زیڈ احمد نے شالیمار اسٹوڈیوز کے نام سے فلم اسٹوڈیو کی بنیاد رکھی تھی اور اس کے تحت پہلی فلم ‘ایک رات’ بنائی جو کام یاب رہی۔ یہ 1942ء کی بات ہے۔ وہ اس فلم کے ہدایت کار بھی تھے۔ اس فلم میں مرکزی کردار موجودہ ہندی سنیما کی مشہور فلم ایکٹریس کرشمہ کپور اور کرینا کپور کے پَر دادا، رشی کپور کے دادا اور راج کپور کے والد پرتھوی راج نے ادا کیا تھا۔ اگلے ہی برس اُن کی فلم پریم سنگیت منظرِ عام پر آئی جس کے ہیرو جے۔ راج تھے۔ اس کے بعد انھوں نے فلم من کی جیت، غلامی نامی فلمیں بنائیں۔ من کی جیت وہ فلم تھی جس کے لیے برصغیر کے نام ور شاعر جوش ملیح آبادی نے پہلی مرتبہ نغمات تحریر کیے تھے اور یہ تمام فلمی نغمات بے حد مقبول ہوئے۔ ناقدین کے مطابق ڈبلیو زیڈ احمد کو پہلی بڑی کام یابی 1944ء میں اُن کی فلم ’من کی جیت‘ پر ہی نصیب ہوئی تھی۔ اس فلم کی کہانی ٹامس ہارڈی کے معروف ناول ’TESS‘ پر مبنی تھی۔ اس میں ہیرو شیام کے مقابل راج کماری اور نِینا نے کام کیا تھا۔ بعد میں ہدایت کار ڈبلیو زیڈ احمد نے نینا سے دوسری شادی بھی کی تھی۔ اُن کی پہلی شادی سر ہدایت اللہ کی صاحبزادی صفیہ سے ہوئی تھی۔

فلم من کی جیت کا ایک گانا بہت مقبول ہوا تھا اور ہندوستان بھر میں کئی برس بعد بھی لوگ اسے گنگناتے تھے جس کے بول تھے: اک دِل کے ٹکڑے ہزار ہوئے، کوئی یہاں گِرا کوئی وہاں گِرا…

قیامِ پاکستان کے بعد ڈبلیو زیڈ احمد ہجرت کرکے لاہور آگئے تھے اور یہاں اپنے نام سے اسٹوڈیو قائم کرلیا، بعد ازاں فلم کوآپریٹو لمیٹڈ کے نام سے انھوں نے ایک فلم ساز ادارہ بھی بنایا۔ پاکستان میں بطور فلم ساز اور ہدایت کار ان کی پہلی فلم روحی تھی جو سنسر بورڈ کے اعتراضات کی نذر ہوگئی تھی۔ وعدہ، وہ فلم تھی جس نے زبردست کام یابیاں سمیٹیں اور اسے فلم انڈسٹری کی بہترین اور یادگار فلموں میں سے ایک کہا جاتا ہے۔

تقسیمِ ہند سے قبل ان کی آخری فلم ’میرا بائی‘ تھی جو 1947 میں ریلیز ہوئی۔ پاکستان آنے کے بعد وہ صرف دو ہی فلمیں بناسکے تھے، لیکن یہ دونوں پاکستان کی فلمی تاریخ میں یادگار اور نمایاں ہیں۔ ایک فلم وعدہ کا ذکر اوپر ہوچکا ہے جب کہ دوسری فلم ’روحی‘ تھی۔ یہ 1954 میں ریلیز ہوئی جس کے لیے ہدایات بھی ڈبلیو زیڈ احمد نے دی تھیں اور وہی کہانی کار اور منظر نویس بھی تھے۔

روحی کی پاکستانی فلم انڈسٹری میں تاریخی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ یہ سینسر بورڈ کے ہاتھوں بین ہونے والی پہلی پاکستانی فلم تھی۔ قارئین کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ اس پر سنسر بورڈ کا ایک اعتراض یہ تھا کہ فلم میں امیر اور غریب کا ایسا تصادم دکھایا گیا ہے جس سے طبقاتی تضاد کو ہوا دی گئی ہے اور فلم بینوں میں اس کو دیکھنے کے بعد طبقاتی نفرت پیدا ہوسکتی ہے جس کے نتیجے میں پاکستانی معاشرے میں بے چینی اور شدید اضطراب جنم لے سکتا ہے۔

فلم ساز اور ہدایت کار ڈبلیو زیڈ احمد کی اس فلم کو معمولی کاٹ چھانٹ کے بعد سینسر بورڈ سے ریلیز کرنے کی اجازت تو مل گئی اور یہ عام نمائش کے لیے پیش بھی کی گئی، لیکن یہ ایک کوآپریٹیو سوسائٹی کے تحت پروڈیوس کردہ فلم تھی۔ اس فلم کی ریلیز کے چند دنوں بعد کوآپریٹیو بینک نے اپنا قرضہ وصول کرنے کے لیے چھاپا مارا اور فلم کا پرنٹ اٹھا کر لے گئے۔ یوں فلم روحی کے پرنٹ کو کہیں‌ ڈبّوں میں ڈال دیا گیا اور اس کا نیگٹو بھی محفوظ نہیں ہے۔ اس فلم میں اداکار شمّی، سنتوش، ساحرہ، غلام محمد نے کام کیا تھا۔

نام وَر فلم ساز ڈبلیو زیڈ احمد لاہور میں بیدیاں روڈ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں