ان دنوں پاکستان میں زیرِ نمائش فلم "دی گلاس ورکر” کا بہت چرچا ہو رہا ہے۔ اس فلم کو انگریزی اور اردو میں فلم بینوں کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ یہ پاکستان، جاپان، امریکا سمیت 50 سے زائد ممالک میں نمائش پذیر ہوئی ہے، جسے فلم بین دیکھ رہے ہیں اور پسند کررہے ہیں۔
یہ پاکستانی فلمی صنعت میں اس لیے اہم فلم ہے، کیونکہ یہ ہاتھ سے بنائی گئی تصویروں پر مشتمل اینیمیٹیڈ فلم ہے جسے ہدایت کار عثمان ریاض نے تقریباً ایک دہائی کے عرصہ میں مکمل کیا ہے۔ اس فلم کی تکمیل کے لیے کتنی محنت اور جدوجہد کرنا پڑی، یہ آپ اس مفصل تبصرے اور تجزیے میں جان سکتے ہیں۔
ہینڈ میڈ اینیمیشن کیا ہوتی ہے
اینیمیشن سے مراد ڈرائنگ کر کے بنائی جانے والی وہ تصویریں ہوتی ہیں، جن کو متحرک کرکے فلم میں ڈھالا جاتا ہے۔ وہ تصویریں جو کمپیوٹر سے بنائی جاتی ہیں، ان کو "کمپیوٹر جنریٹیڈ امیجری” (Computer-generated imagery) کہا جاتا ہے، جب کہ وہ تصویریں جنہیں ہاتھ سے بنایا جائے، ان کو "ہینڈ میڈ امیجز” کہا جاتا ہے، یعنی انسانی ہاتھ کی بنائی ہوئی وہ تصویر جسے کمپیوٹر کی اسکرین پر لا کر حتمی شکل دی جاتی ہے اور تصویروں کے خاکے بنا کران میں رنگ بھرتے ہیں جس سے فلم تیار کرلی جاتی ہے۔
یہ پہلی پاکستانی ہینڈ میڈ اینیمیشن فلم کیسے ہے؟
پاکستانی فلمی صنعت میں اینیمیشن فلموں کی تاریخ بہت پرانی نہیں ہے، ہم اگر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو جن پاکستانی اینیمیٹڈ فلموں کو باکس آفس پر مقبولیت ملی اور وہ "سی جی ای” کی مدد سے بنائی گئیں، ان چند نمایاں فلموں میں دی کرونیکل آف عمرو عیار (2024) اللہ یار اینڈ دی ہنڈرڈ فلاورز آف گاڈ (2023) ڈونکی کنگ (2018) اور تین بہادر سیریز کی تینوں فلمیں اور دیگر شامل ہیں۔ فلم "دی گلاس ورکر” اس لحاظ سے منفرد اور پاکستان کی پہلی فلم ہے، جس کی اینمیشن ہاتھوں سے کی گئی۔
یہ طریقہ امریکا اور جاپان سے آیا ہے، وہاں اس طرز کی فلمیں اب تک بنائی جاتی ہیں بلکہ "دی گلاس ورکر” کے ہدایت کار عثمان ریاض نے تو برملا جاپانی اینیمیشن سے متاثر ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ وہ جاپان کے "اسٹوڈیو گیبلی” اور اس کے بانیان اور ہینڈ میڈ اینیمیٹیڈ فلموں کے فلم ساز "ہیا اومیازاکی” اور "ایساؤ تاکاہاتا” سے بے پناہ متاثر ہیں۔ یہی وجہ ہے، عثمان ریاض کی اس پہلی فیچر فلم پر اس اسٹوڈیو اور فلم سازوں کے گہرے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے علاوہ انہیں امریکی فلم ساز "والٹ ڈزنی” کا کام بھی پسند ہے۔
فلم سازی
ہاتھ سے تخلیق کردہ اینیمیشن فلموں کا بجٹ کافی زیادہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے "دی گلاس ورکر” کی ٹیم نے سب سے پہلے امریکا اور جاپان میں متعلقہ فلم سازوں سے رابطے کیے اور ان سے ملنے والی تجاویز کی روشنی میں فیصلہ کیا کہ پاکستان میں ہینڈ میڈ اینیمیشن اسٹوڈیو قائم کیا جائے اور اس کے تحت کام کو آگے بڑھایا جائے۔ عثمان ریاض جو ایک اچھے فلم ساز ہونے کے ساتھ ساتھ موسیقار بھی ہیں، انہوں نے اپنی اہلیہ مریم ریاض پراچہ اور کزن خضر ریاض کے ساتھ مل کر "مانو اینیمیشن اسٹوڈیوز” قائم کیا۔ اس اسٹوڈیو میں جدید ٹیکنالوجی اور فنی مہارتوں کے حامل تعلیم یافتہ اور نوجوان نسل کے ہنر مندوں کو جمع کیا گیا اور یوں درجنوں اینیمیٹرز نے مل کر اس فلم کے خواب کی تعبیر پانے کی جدوجہد شروع کی۔ اس فلم کے مرکزی پروڈیوسرز میں خضر ریاض (پاکستان) اورمینول کرسٹوبیل (اسپین) شامل ہیں، جب کہ ایگزیکٹیو پروڈیوسرز میں عامر بیگ (پاکستان) اپوروا بخشی (انڈیا)، اظہر حمید (پاکستان)، اطہر ملک (پاکستان)، احمد ریاض (پاکستان) اور ایسوسی ایٹ پروڈیوسر مریم ریاض پراچہ ہیں۔
اس فلم کے ابتدائی فنڈز جمع کرنے کے لیے "کک اسٹارٹر” کے فورم سے مدد لی گئی اور اس تناظر میں ایک لاکھ سولہ ہزار ڈالرز کی رقم حاصل ہوئی، جس سے اسٹوڈیو قائم ہوا اور فلم بنانے کی ابتدا ہوئی۔ اس کے بعد کئی پروڈیوسرز بھی اس فلم کا حصہ بنے اور بالآخر فلم پایۂ تکمیل کو پہنچی۔ اس فلم کو فرانس کے عالمی شہرت یافتہ اینیمیٹیڈ فلموں کے فیسٹیول "اینسی انٹرنیشنل ” کا حصہ بنایا گیا، جہاں یہ آفیشل مقابلے میں تو شامل نہ ہوسکی، لیکن بغیر مقابلہ منتخب کردہ فیچر فلموں کی فہرست میں اسے شامل کر لیا گیا۔ اسی طرح پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ فلم فرانس کے مشہور فلم فیسٹیول "کانز” کا بھی حصہ بنی۔ پروڈکشن کے لحاظ سے عثمان ریاض کی یہ حکمتِ عملی مؤثر رہی کہ انہوں نے عالمی سطح کے نامور لوگوں کو ٹیم کا حصّہ بنایا، جس کی وجہ سے ان کو بین الاقوامی فلمی حلقوں کی توجہ حاصل ہوئی اور وہ اپنی فلم کی شہرت پوری دنیا تک پہنچانے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے معروف امریکی فلم ساز اسٹیون اسپیل برگ سے بھی ایک مختصر ملاقات میں اپنی اس فلم کا تذکرہ کیا۔
یہ سارا منظر نامہ متاثر کن ہے، جو اس فلم کو ایک برانڈ میں تبدیل کرتا نظر آتا ہے۔پاکستان میں البتہ فلم کا پریمئیر، پروموشن ہونی چاہیے تھی، وہ بہت زیادہ مؤثر طریقے سے نہیں ہوئی اور پاکستانی فلم بینوں کو اس فلم کے قریب لانے کی کوششیں کچھ زیادہ نہ ہوسکیں۔ شاید ہدایت کار کی نظر صرف عالمی فلمی حلقوں اور شخصیات پر ہی مرکوز ہو گی۔ بقول عثمان ریاض اس فلمی منصوبے پر لگ بھگ چار سو سے پانچ سو افراد نے کام کیا ہے، جو ایک قابلِ ذکر بات ہے۔
کہانی/ اسکرین پلے
اس فلم کی کہانی کے بارے میں عثمان ریاض کہتے ہیں کہ انہوں نے اس کہانی کو سوچا، کیونکہ یہ کہانی اور اس کے کلیدی ماخذ انہیں اپنے خاندان سے ورثے میں ملے۔ یوں مرکزی خیال تو عثمان ریا ض کا ہے، البتہ اسے فلم کی کہانی میں تبدیل کر کے اسکرپٹ لکھنے کا کام برطانوی اسکرپٹ رائٹر "مویا اوشیا” نے کیا۔ وہ عالمی شہرت یافتہ لکھاری ہیں اور انہوں نے اس کہانی کو بھی چابک دستی سے لکھا ہے۔ جنگ اور محبت کے تناظر میں لکھی گئی یہ کہانی متاثر کن ہے البتہ کچھ چیزوں کا فیصلہ ہدایت کار کو کرنا تھا، جن کی وضاحت اس کہانی میں نہ ہوسکی۔
عثمان ریاض کے مطابق کہانی کا پس منظر پاکستان ہے، جب کہ فلم دیکھ کر ایسا کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ چند مناظر کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ پاکستانی پس منظر ہے، مگر فلم میں اس کا تناسب بہت کم اور تاثر بہت مدھم ہے۔ اس کہانی کا مرکزی خیال لکھنے والے اگر اسے پاکستانی پس منظر میں قید کرنے کی کوشش نہ کرتے، تو اچھا تھا اور اگر پاکستانی ثقافت ناگزیر تھی تو پھر اس کو اچھی طرح کہانی، کرداروں اور مکالمات کے ذریعے پیش کرتے۔ اس پہلو سے کہانی ناکام رہی اور فلم دیکھ کر پاکستانی کہانی ہونے کا قطعی احساس نہیں ہوتا، بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ فلم "گیبلی اسٹوڈیو” کے فلم ساز "ہیااُو میازاکی” کی فلم "ہاؤلز موونگ کیسل” سے کافی متاثر ہے۔
اس فلم کی کہانی میں دو مزید خامیاں ہیں۔ پہلی خامی یہ کہ کہانی میں مرکزی کرداروں "ونسنٹ اولیور” اور "ایلیزا امانو” کی تشکیل ادھوری ہے۔ ذیلی کرداروں میں ونسنٹ اولیور کے والد تھامس اولیور (شیشہ گر) اور ایلیزا امانو کے والد (فوجی افسر) کہانی پر زیادہ چھائے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ان کے سائے میں مرکزی کردار دب گئے۔ یہ کہانی کی ناکامی ہے اور دوسری خامی کہانی کا برق رفتاری سے آگے بڑھنا ہے۔ کئی مقامات اور کرداروں کے حالات کی وضاحت ہی نہیں ہوسکی، نہ ہی ان کرداروں کو اچھی طرح سے کہانی میں بیان کیا گیا۔ کمزور کرداروں اور ادھورے اور کنفیوز کلائمکس کے ساتھ بہرحال اپنے آرٹ ورک کی وجہ سے یہ کہانی فلم بینوں کو اپنی طرف ضرور متوجہ کرے گی۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اس فلم میں کہانی کا شعبہ کمزور ہے۔
ہدایت کاری
اس فلم کو کیسے بہت محنت کے ساتھ مختلف مراحل سے گزار کر حتمی شکل میں پیش کیا گیا، یہ آپ یہاں پڑھ چکے ہیں۔ ایک اچھے آرٹ ورک اور پروڈکشن ڈیزائن کی بنیاد پر عثمان ریاض بطور ہدایت کار کامیاب رہے ہیں۔ اتنی بڑی ٹیم، فن کاروں اور اینیمیٹرز کے ساتھ کام کیا لیکن شاید یہ پہلی فلم ہے، اس لیے ان پر جاپانی اینیمیشن کے گہرے اثرات ہیں۔ بطور ہدایت کار ان کو اپنا مختلف انداز اور طرز اپنانا ہو گی، تب ہی وہ تخلیقی طور پر کامیاب سمجھے جائیں گے۔ ورنہ انہیں جاپانی اینیمیشن فلم سازی کی پرچھائیں کے طور پر ہی شناخت ملے گی، جو بالکل مناسب نہیں ہے۔ ہر فلم ساز کی اپنی جداگانہ شناخت ہونی چاہیے۔
صدا کاری
انگریزی اور اردو ورژن کے لیے الگ الگ فن کاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا ہے۔ دونوں ورژن میں کام متاثر کن ہے۔ انگریزی میں آرٹ ملک (اطہر ملک) نے بہترین کام کیا ہے۔ پاکستانی نژاد امریکی فن کار نے ہالی ووڈ میں نام پیدا کیا اور دنیا کے مقبول ترین فن کاروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ اس فلم میں بھی انہوں نے عمدہ کام کیا ہے۔ دیگر فن کاروں نے بھی اچھی کارکردگی دکھائی۔ اسی طرح اردو ورژن میں بھی تمام فن کاروں نے اپنے حصے کا کام اچھی طرح انجام دیا، لیکن خالد انعم نے تو دل چھو لیا۔ انہوں نے کمال صدا کاری کی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس فلم کا میدان اطہر ملک اور خالد انعم نے مار لیا۔
موسیقی و دیگر پہلو
اس فلم کی تین خاص باتیں ہیں جن میں سے ایک اس کی مسحور کن موسیقی بھی ہے۔ پہلی خاص بات تو فلم کا آرٹ ورک ہے اور دوسری بہت ساری محنت جو اس فلم کو بنانے میں ہوئی، جس کا صحیح اندازہ لگانے کے لیے اسے مانو اینیمیشن اسٹوڈیو کے یوٹیوب چینل پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اور تیسری خاص بات یعنی اس کی انتہائی سریلی، مدھر اور دلوں کے تار چھیڑنے والی موسیقی ہے، جس سے آپ فلم دیکھتے ہوئے بے حد لطف اندوز ہوں گے۔ عثمان ریاض چونکہ خود اچھے موسیقار ہیں اور امریکا کے "برکلے کالج آف میوزک” سے تعلیم یافتہ ہیں، تو اس پر انہوں نے خوب توجہ دی ہے۔ اپنے فن سے اور دنیا بھر کے چند اچھے اور منتخب فن کاروں کے کام کو شامل کرکے، ایک یادگار موسیقی تخلیق کی ہے۔ عثمان ریاض کے ساتھ ساتھ اٹلی سے تعلق رکھنے والے موسیقار "کارمین ڈی فلوریو” کی کاوشوں نے فلم کو سُروں سے بھر دیا ہے۔
پذیرائی و مقبولیت
اس فلم کو پاکستان میں سمیت دنیا بھر میں پسند کیا جا رہا ہے، جو بہت خوش گوار بات ہے۔ اب تک یہ فلم باکس آفس پر بھی تیس ملین سے زائد کا بزنس کر چکی ہے۔فلموں کی سب سے بڑی ویب سائٹ "آئی ایم ڈی بی” پر اس فلم کی ریٹنگ 10 میں سے 8 اعشاریہ چھ فیصد ہے۔ گوگل کے صارفین کی طرف سے اب تک پسندیدگی کا تناسب سو میں سے اٹھانوے فیصد ہے اور پانچ میں سے چار اعشاریہ آٹھ فیصد ریٹنگ ہے۔ پاکستان میں بھی فلم دی گلاس ورکر کی پسندیدگی کا تناسب کافی بہتر ہے۔
یہ الگ بات ہے، برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی پاکستان میں اردو سروس پر عثمان ریاض کے ایک انٹرویو کی سرخی میں فلم کا اردو نام میں "شیشہ گر” کے بجائے "شیشہ گھر” لکھا گیا اور شاید اسی غلطی کو دیکھتے ہوئے فلم ساز نے فیصلہ کیا کہ اس کے اردو ورژن کو بھی "دی گلاس ورکر” ہی لکھا جائے تو بہتر ہے۔
حرفِ آخر
مانو اینیمیشن اسٹوڈیوز، عثمان ریاض ان کی ٹیم اور وہ سیکڑوں لوگ جنہوں نے اس فلم کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کیا، مبارک باد کے مستحق ہیں مگر اس دنیا میں اپنی الگ اور منفرد شناخت بنانی ہے، تو اسی طرح پاکستانی انداز اپنائیے، جس طرح آپ نے "ای ایم آئی پاکستان” کے لیے، پاکستان کی موسیقی کے سنہرے دور کو اینیمیشن کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اسی طرح اپنی مقامی کہانیاں، اپنے اس شان دار آرٹ کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کر کے مزید مقبولیت اور کام یابیاں سمیٹی جاسکتی ہیں۔
ایک افسوس ناک بات یہ بھی ہوئی کہ پاکستان میں اس فلم کے تقسیم کار نے عین اس فلم کی نمائش کے موقع پر کراچی شہر کے مرکز میں واقع اپنا سینما اچانک بند کر دیا۔
پاکستان میں فلمی صنعت اور سینما کے موجودہ حالات کے اس پس منظر میں "دی گلاس ورکر” ایک تازہ ہوا کا جھونکا ضرور ہے۔ فلم بینوں سے کہوں گا کہ آپ ہاتھ سے بنائی گئی پہلی پاکستانی ٹو ڈی اینیمیٹڈ فلم دیکھنے سینما ضرور جائیے تاکہ انتھک محنت کے ساتھ ایسی زبردست کاوش پر فلم ساز اور پوری ٹیم کی حوصلہ افزائی ہو اور پاکستانی فلمی صنعت کا یہ نیا شعبہ پھولے پَھلے اور ترقی کرے۔