جلال الدّین محمد اکبر ہندوستان کے وہ مغل بادشاہ ہیں جو تاریخ میں ’اکبرِ اعظم‘ کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ جلال الدّین اکبر کا عہد حکومت علم و فنون کی سرپرستی کے لیے بھی مشہور ہے۔ اکبر کے دربار میں کئی اہلِ علم اور فن کار موجود رہے اور بادشاہ نے ان کی بڑی قدر اور عزّت افزائی کی۔
اکبر کے عہدِ حکومت پر بہت سے کتابیں لکھی گئیں، جن میں ابوالفضل کی اکبر نامہ، محمد حسین آزاد کی دربارِ اکبری اور سرسید احمد خان کی آئینِ اکبری سرِفہرست ہیں۔ ان کے علاوہ غیرملکی مؤرخین اور سیّاحوں نے بھی اکبر کی شخصیت اور اس کے دربار کا احوال رقم کیا ہے۔ عبدالمجید سالک نے سیموئل نسنسن اور ولیم اے ڈی وٹ کی کتاب کے ترجمے میں لکھا ہے کہ ’اگرچہ اکبر اَن پڑھ تھے، لیکن ان کو علوم و فنون کی امداد اور سرپرستی کا خاص شوق تھا۔ بڑے بڑے شعرا، مصور، موسیقار، معمار اور دوسرے با کمال اس کی بخشش اور قدر دانی سے مالا مال ہوتے رہتے تھے اور اس کا دربار دور و نزدیک کے ماہرین فن کا مرکز بن گیا تھا۔ یہاں ہم پاکستان کے ممتاز مصوّر عبدالرّحمٰن چغتائی کے ایک مضمون بعنوان "مصّوری” سے یہ پارہ نقل کررہے ہیں جو بادشاہ اکبر کی اس فن میں دل چسپی اور سرپرستی کا عکاس ہے۔ چغتائی صاحب لکھتے ہیں:
"اکبر کی عمر ابھی قریب چودہ برس کی تھی کہ تیموری تاج اس کے سرپر رکھا گیا۔ اس کے اتالیق منعم خاں اور بیرم خاں تھے۔ اس کی عملداری کو مضبوط کرنے کی طرف توجہ کی۔ اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو اکبر کے نازک شانے تنہا حکومت کے بارِ گراں کو نہ اٹھا سکتے۔ انہوں نے اپنے آقا کی ذمہ داریوں کو اپنے سر لے لیا۔ اکبر نے ابتدائی مہموں سے فرصت حاصل کر کے فوراً علوم و فنون کی طرف توجہ کی۔ بچپن ہی سے اسے مصوری اور قصے سننے کی طرف رغبت تھی۔ اور میر سید علی تبریزی اور خواجہ عبدالصمد شیریں قلم برابر اپنا کام کر رہے تھے۔ اگرچہ وہ ابتدا میں کچھ ملول تھے مگر نوجوان بادشاہ کو ان کے فن سے دلچسپی نے ان کی ہمتیں بڑھا دیں۔ انہوں نے بڑی گرم جوشی سے داستانِ امیر حمزہ کو مصور کیا، جس کی پوری تفصیل اس عہد کی تاریخ میں ملتی ہے۔ بلکہ اکبر کی اکیڈمی مصوری میں ان دو ایرانی مصوروں کے علاوہ کئی ہندو مصور بھی بطور تلمیذ شریک ہوئے۔”
"اکبر کو جمالیاتی کیفیات کا صحیح اندازہ کرنے اور ان سے حظ اٹھانے میں قدرت نے کامل طور پر ملکہ عطا کیا تھا اور دینی معاملات اور ملکی مصلحتوں کی بنا پر نہایت درجہ وسیع۔ اس نے اپنے اس رویہ سے ہر فرقہ کو اپنی کم عمری سے مسخر کر لیا تھا اور خاص کر راجپوتوں کو قرب حاصل ہوا۔ آرٹ اکیڈمی میں سب قسم کے لوگ مل کر کام کرتے تھے۔ ابوالفضل نے ایک ہندو مصور کے متعلق لکھا ہے کہ وہ ایک کہار کا لڑکا تھا۔ اکبرؔ نے اپنی دور رس جمالیاتی نگاہ سے اس کو دیکھا، جب کہ وہ ابھی کمسن بچہ ہی تھا اور ایک دیوار نقش و نگار کر رہا تھا، جیسا عام طور پر بچے تیار کرتے ہیں لیکن اکبر کی مردم شناسی تاڑ گئی کہ اس لڑکے میں اعلیٰ مصور بننے کے جوہر موجود ہیں۔”
"چنانچہ اس نے اسے خواجہ عبدالصمد کے سپرد کیا تو اس کی تعلیم سے وہ بے مثال مصور نکلا مگر وہ اپنے فطری جذبۂ مصوری میں اس قدر پیش پیش آیا کہ وہ نوجوانی ہی میں دماغی توازن کھو کر ختم ہوگیا۔ اس کے کارنامے بجائے خود اس کے اعلیٰ فن کار ہونے کا پتہ دیتے ہیں۔ اکبر کو مصوری کا اس قدر شوق تھا کہ اس نے فتح پور سیکری میں دیواروں پر ان مصوروں سے تصاویر بنوائیں، جن کے نشان آج تک باقی ہیں اور اکبر، مصوّری کے جمالیاتی پہلو سے اس قدر متاثر ہوا کہ دلائل کے ذریعہ ہمیشہ یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا کہ مصوری اسلام کی تعلیم کے خلاف نہیں ہے بلکہ معرفتِ الٰہی حاصل کرنے کے جہاں اور دوسرے طریقے ہیں وہاں ایک یہ بھی ہے۔
چنانچہ ایک مرتبہ اس نے جب کہ سعادت مند لوگ انجمن خاص میں موجود تھے، فرمایا کہ بہت سے لوگ مصوری کے پیشے کو برا بتلاتے ہیں، مجھے یہ گوارا نہیں، میرے خیال میں مصور خدا شناسی میں دوسروں سے بڑھ کر ہے۔ جب وہ کبھی جانور کی تصویر بناتا ہے اور حصّے کو الگ الگ کھینچتا ہے مگر روح اور جسم میں رابطہ پیدا کرنے سے عاجز ہے تو وہ خالقِ حقیقی کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اپنے عجز سے معرفتِ الٰہی حاصل کرتا ہے۔ یعنی اللہ کو ہی واحد خالق سمجھنے کا ایک ذریعہ ہے۔”
"اکبر نے اپنی سرپرستی میں علاوہ داستانِ امیر حمزہ کے سنسکرت کتابوں کے فارسی میں ترجمے کروا کر ان کو مصوّر بھی کرایا جس کے اکثر مصوّر نسخے آج بھی ملتے ہیں۔ اور دیگر کتب بابر نامہ، انوار سہیلی وغیرہ جیسی کتابوں کو مصوّر کرایا۔ اس عہد کے امراء میں عبدالرحیم خان خاناں خاص طور پرقابلِ ذکر ہے جس نے اپنے ہاں الگ ایک شعبہ قلمی اور مصور کتابوں کے تیار کرنے کا قائم کیا ہوا تھا اور اکثر فن کار اس کے ہاں کام کرتے تھے، جن میں میاں قدیم اور عبدالرحیم عنبرین قلم قابلِ ذکر ہیں۔”