کراچی: نیپا چورنگی پر مبینہ پولیس مقابلے میں جاں بحق ہونے والے رینجرز اسکول کے طالب علم عتیق کے قتل کی ایف آئی آر اہل خانہ کی مدعیت میں درج کر لی گئی مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات نہ شامل کرنے لواحقین نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔
تفصیلات کے مطابق دو روز قبل نیپا چورنگی پر مبینہ پولیس مقابلے میں جاں بحق ہونے والے رینجرز کیڈیٹ کالج کے طالب علم عتیق کے اہل خانہ مقدمے کے اندارج کے لیے گلشن اقبال تھانے پہنچنے تو پولیس افسران نے اپنے پیٹی بھائیوں کو بچانے کے لیے ایف آئی آر میں دہشت گردی کی دفعات شامل نہ کیے بغیر مقدمہ درج کرلیا۔
اہل خانہ کی جانب سے ایف آئی آر میں دہشت گردی کی دفعات شامل کرنے کے اصرار پر لواحقین اور پولیس افسران کے درمیان تلخ کلامی ہوئی جس کے بعد اہل خانہ نے تھانے کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا اور اعلیٰ حکام سے پولیس افسران کے رویے کانوٹس لینے کا مطالبہ بھی کیا۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے عتیق کے عزیز نے کہا کہ ’’ہم دوپہر 3 بجے سے تھانے میں موجود ہیں پولیس افسران ہمارے ساتھ تعاون نہیں کررہے اور ایف آئی آر کے اندراج میں قتل و اقدامِ قتل کی دفعات شامل کیے بغیر مقدمہ درج کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’’عتیق رینجرز کیڈیٹ کالج میں سیکنڈ ائیر کا طالب علم تھا اور اُسے پولیس نے ڈاکو قرار دے کر جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیا تاہم اب انصاف کے لیے قانون کا دروازے پر آئے تو وہاں بھی مایوسی ہوئی‘‘۔
پڑھیں: گلشن اقبال میبنہ جعلی پولیس مقابلہ، آئی جی سندھ کا نوٹس
بعد ازاں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے مبینہ پولیس مقابلے میں طالب علم کی ہلاکت کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سندھ سے رابطہ کر کے ایک ہفتے میں کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ’’پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کو بے نقاب کیا جائے اور ایسے افراد کے خلاف سخت سے سخت کارروائی عمل میں لائی جائے‘‘۔
انہوں نے آئی جی سندھ کو واضح کیا کہ پولیس کو کسی معصوم شخص کو قتل کرنے کا اختیار نہیں تاہم سندھ حکومت پولیس کو یہ اختیار نہیں دے سکتی کہ وہ کسی بھی ماں کی گود اجاڑے۔