کراچی جیسے گنجان آباد اور تیزی سے پھیلتے ہوئے شہر میں حفاظتی خطرات بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنے اردگرد ہونے والے ناخوشگوار حادثے کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔ یوٹیلیٹی انفرااسٹرکچر پر تجاوزات کی شکل میں موجود ٹی وی اور انٹرنیٹ کے کیبلز نے تعمیرات کو خطرناک حد تک بجلی کی تاروں کے قریب کردیا ہے۔ جب کہ کنڈوں کے ذریعے بجلی کی چوری نے عام شہریوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ان سب عوامل کے باعث مون سون کے موسم میں خطرات اور بھی زیادہ بڑھ جاتے ہیں، کیوں کہ پانی اور بجلی کا ملاپ خطرناک ہوتا ہے۔
تجاوزات اور بجلی کی چوری کی روک تھام کرنا جہاں ضروری ہیں، وہیں برقی حادثے کی صورت میں حالت سے ہمیں نمٹنا بھی آنا چاہیے۔ کیوں کہ بروقت طبی امداد کسی کی جان بچاسکتی ہے۔ خاص طور پر ایسے حادثے جو گھروں کے اندر ناقص وائرنگ، خراب سوئچ اور پانی کی موٹروں کے باعث ہوتے ہیں۔
ذیل میں کچھ ایسے اقدامات بتائے جارہے ہیں جو ہسپتال لے جانے کے دوران یا طبی امداد ملنے سے قبل کیے جاسکتے ہیں۔ فوری طور پر زندگی بچانے والی ایمبولینس، جیسے سندھ ایمرجنسی ریسکیو سروس (1122) کو کال کریں۔
1۔ بجلی کا مین سوئچ بند کردیں اور متاثرہ شخص کو حفاظتی اقدامات کے بغیر ہاتھ نہ لگائیں
اگر آپ باہر ہیں اور آپ کو ایک ٹوٹی ہوئی تار نظر آتی ہے جو زمین پر گری ہوئی ہے، یا بجلی کے انفرااسٹرکچر سے چنگاری نکل رہی ہے، تو فوری طور پر 118 پر کال کریں۔ کے۔ الیکٹرک تمام رہائشیوں اور راہ گیروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے علاقے کو بجلی بند کر کے ہنگامی شکایات کا فوری جواب دیتا ہے۔ اگر گھر کے اندر کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو سب سے پہلے بجلی کا مین سوئچ بند کریں۔ متاثرہ شخص کو حفاظتی اقدامات کے بغیر نہ چھوئیں۔ متاثرہ شخص کو بجلی کے ذرائع سے دور کرنے کے لیے پلاسٹک، لکڑی یا ربڑ سے بنی چیز کا استعمال کریں اور فوری طور پر ایمبولینس کو کال کریں۔
متاثرہ شخص کو پیٹھ کے بل سیدھا لٹا دیں اور اس کی آنکھیں کھولیں۔ اگر وہ شخص جواب دینے کے قابل نہ ہو تو کسی کوسی پی آر کرنے کے لیے کہیں۔ پانی بجلی کا اچھا موصل ہے، اس لیے برقی آگ بجھانے کے لیے پانی کا استعمال نہ کریں، بلکہ ریت یا XXXX استعمال کریں۔
2۔ جلنے کا علاج
اگر متاثرہ شخص سانس لے رہا ہو اور بات کرنے کے قابل ہو تو ابتدائی طبی امداد سے قبل اسے باتوں مشغول رکھیں۔ اگر ایمبولینس آنے میں دیر ہو تو اُسے فوری قریبی اسپتال لے جائیں، کیوں کہ بارش کے موسم میں جگہ جگہ پانی کھڑا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ایمبولینس کو پہنچنے میں دشواری ہوسکتی ہے۔ جلی ہوئی جگہ کو بہتے ہوئے پانی سے 15 سے 20 منٹ تک ٹھنڈا کریں۔ جلی ہوئی جگہ پرکبھی بھی تیل یا مرہم سے نہ لگائیں۔ جلنے کی جگہ کو صرف ایسی ڈریسنگ سے ڈھانپ سکتے ہیں جو جلد پر نہ چپکے۔ متبادل کے طور پر آپ کلنگ ریپ کو ڈھیلے طریقے سے بھی لگاسکتے ہیں لیکن اس بات کو یقینی بنائیں کہ یہ جسم کے کسی بھی حصے کے گرد مضبوطی سے نے لگا ہو، کیونکہ اس سے سوجن جیسے مزید پیچیدہ مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
3۔ بجلی کی تاروں میں گھری ہوئی گاڑیاں
تیز ہواؤں کے چلنے یا گرج چمک کے دوران بجلی کے تار ٹوٹ یا اپنی جگہ سے ہٹ سکتے ہیں۔ اکثر ٹی وی اور انٹرنیٹ کیبلز میں بوسٹر ڈیوائسز ہوتی ہیں جن میں کرنٹ ہوتا ہے۔ ایسی تاریں جو بجلی کے تمام انفرااسٹرکچر کو گھیرے ہوئی ہوں، خاص طور پر خطرناک ہوسکتی ہیں۔ ان خدشات کے پیش نظر حفاظتی اقدامات کے طور پر اُس علاقے میں بجلی کی فراہمی منقطع کردی جاتی ہے، لیکن اگر نہیں کی گئی ہو تو یوٹیلیٹی کو فون کرکے بجلی کی فراہمی منقطع کرنے کی درخواست کریں۔
اگر آپ گاڑی کے اندر ہیں، تو جان لیں کہ ٹائر سے بجلی گزر سکتی ہے، اس لیے ممکنہ برقی جھٹکے سے محفوظ رہنے کے لیے آپ کو گاڑی کے اندر ہی رہنا چاہیے۔ بجلی کمپنی یا ایمبولینس سروس آپ کی مدد کرسکتے ہیں، اس لیے انہیں فون کریں تاکہ وہ آپ کے محفوظ طریقے سے گاڑی سے باہر نکلنے میں مدد کریں۔
اگر آپ جائے حادثہ کے قریب ہوں، تو کم از کم 8 سے 10 میٹر کا محفوظ فاصلہ برقرار رکھیں اور متعلقہ حکام کو فون کرکے جائے حادثہ کا بتائیں۔
اس بات کا امکان ہے کہ بجلی کے جھٹکے کے بعد کچھ لوگ عارضی طور پر جسم میں سنسناہٹ محسوس کریں، لیکن اس سے کوئی خاص جسمانی نقصان نہیں ہوتا۔ جو لوگ 24 سے 48 گھنٹوں کے دوران زخمی یا دل کے امراض کا شکار نہیں ہوتے، وہ بہت ممکن ہے کہ برقی جھٹکے کے باوجود نارمل رہیں۔