میلبرن: حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ مچھلیوں کی ایک قسم انسانی چہروں میں امتیاز کرسکتی ہے۔ یہ خصوصیت ان کے دماغ میں چہروں کو پہچاننے والے حصہ کیوریکل نیوکورٹکس کی عدم موجودگی کے باوجود پائی جاتی ہے۔
یہ تحقیق لندن کی آکسفورڈ یونیورسٹی اور آسٹریلیا کی کوئینز لینڈ یونیورسٹی کی جانب سے مشترکہ طور پر کی گئی۔ اس سے قبل یہ تصور کیا جاتا تھا کہ انسانوں کو پہچاننے کی خاصیت جسمانی طور پر ترقی یافتہ جاندار جیسے بندروں میں ہی ہوتی ہے۔
یہ تحقیق آرچر فش پر کی گئی جو آسٹریلیا اور جنوب مشرقی ایشیائی پانیوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ مچھلی کیڑوں کا شکار کرنے کے لیے منہ سے پانی کی تیز دھار ہدف پر پھینکتی ہے۔
لیبارٹری میں کیے جانے والے ٹیسٹ میں اس مچھلی کو دو افراد کی تصاویر دکھائی گئیں اور تربیت دی گئی کہ وہ ان میں سے کسی ایک پر پانی کی دھار پھینکیں۔
مچھلی نے ہر بار اجنبی چہرے کو اپنا نشانہ بنایا۔ شناسا چہرے میں کچھ تبدیلیاں بھی کی گئیں جیسے چہرے کی ساخت یا بالوں کے رنگ میں تبدیلی، تاہم ان سب کے باوجود مچھلی نے اسے پہچان لیا۔
اسی قسم کے ایک اور تجربہ میں پکاسو ٹریگر فش نے سفید اشیا سے بھری میز پر ایک سیاہ جسم کو شناخت کرلیا۔
ماہرین نے بتایا کہ یہ مچھلیاں اپنے مسکن کو ان کی رنگت اور ساخت سے پہچانتی ہیں لیکن کورل ریف کی بلیچنگ (مونگے کی چٹانوں کی رنگت کھو جانے) کے باعث ان کے رہنے کی جگہیں بھی اپنی رنگت کھو رہی ہیں۔ یہ کہنا مشکل ہوگا کہ اس عمل کے بعد بھی آیا یہ مچھلیاں اپنے گھروں کو پہچان سکیں گی یا نہیں۔
سائنسدانوں نے اس پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ مچھلیوں کے دماغ کی بناوٹ نہایت سادہ ہوتی ہے اور وہ زیادہ افعال سر انجام نہیں دے سکتا۔ اس کے باوجود وہ انسانی چہروں کو شناخت کر سکتی ہیں۔