اسلام آباد: سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت جاری ہے۔ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث استغاثہ کے گواہ واجد ضیا پر جرح کر رہے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کی۔
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ اور استغاثہ کے گواہ واجد ضیا پر جرح کر رہے ہیں۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔
سماعت میں متحدہ عرب امارات حکام کو لکھا گیا ایم ایل اے عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دیا گیا۔
استغاثہ کے گواہ واجد ضیا نے کہا کہ ایم ایل اے میں یو اے ای حکام سے قانونی سوالات پوچھے تھے۔ وکیل نے دریافت کیا کہ کیا یہ درست ہے پہلا سوال کوئی قانونی نہیں بلکہ حقائق سے متعلق تھا۔
واجد ضیا نے کہا کہ جی یہ درست ہے پہلے سوال میں صرف حقائق پوچھے تھے۔ دوسرا سوال بھی حقائق سے متعلق تھا۔ قانونی سوالات باہمی قانونی تعاون کے تحت خط و کتابت کے تناظر میں کہے۔
خواجہ حارث نے دریافت کیا کہ نیب قوانین کی کس شق کے تحت آپ نے یہ ایم ایل اے بھیجا؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ایسے سوالات گواہ سے نہیں پوچھے جا سکتے۔
واجد ضیا نے بتایا کہ حکومت نے جے آئی ٹی کو ایم ایل اے بھیجنے کی اتھارٹی دے رکھی تھی۔ وزارت قانون و انصاف نے ایم ایل اے لکھنے کا اختیار دیا تھا۔ سیکشن 21 کے تحت ایم ایل اے لکھنے کا اختیار دیا گیا۔
جج نے وکیل سے کہا کہ خواجہ صاحب آپ صرف حقائق سے متعلق سوال پوچھیں تو بہتر ہے۔ کس قانون میں کیا ہے یہ سوالات گواہ سے کیا پوچھنے ہیں۔
واجد ضیا نے کہا کہ میں نے پہلے سیکشن 21 پڑھا تھا۔ یہ وکیلوں والے سوالات ہیں۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ قانونی نکات سے متعلق سوالات گواہ سے نہیں پوچھے جا سکتے۔ واجد ضیا ہمارے گواہ ہیں کوئی قانونی ماہر نہیں۔
عدالت نے نیب پراسیکیوٹر کا اعتراض منظور کرتے ہوئے خواجہ حارث کو گواہ سے صرف متعلقہ سوالات پوچھنے کی ہدایت کردی۔
واجد ضیا نے مزید کہا کہ 13 مئی 2017 کو حماد بن جاسم کو جے آئی ٹی میں پیش ہونے کا خط لکھا، حماد بن جاسم نے پاکستان آ کر بیان ریکارڈ کروانے سے انکار کیا۔
انہوں نے کہا کہ حماد بن جاسم نے لکھا آپ لوگ دوحہ آ کر بیان ریکارڈ کریں۔ حماد بن جاسم نے خط کے جواب میں کہا سوالنامہ پہلے فراہم کریں۔ ہم نے 24 مئی 2017 کو ایک اور خط حماد بن جاسم کو لکھا۔
واجد ضیا کا کہنا تھا کہ حماد بن جاسم نے پھر پیش ہو کر بیان ریکارڈ کروانے سے انکار کر دیا۔ بعد میں قطری شہزادے نے قطر میں ملاقات پر مشروط رضا مندی ظاہر کی۔ سوالنامہ پہلے بھیجنے پر جے آئی ٹی رضا مند نہ ہوئی۔
اس سے قبل 26 اکتوبر کو نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت میں وکیل زبیر خالد نے اخبار کی خبر پر نوٹس لینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ منسٹر ہے جو آپ اور نواز شریف کی گرفتاری سے متعلق بیان دے رہا ہے۔
معاون وکیل زبیر خالد نے کہا تھا کہ عدالت کو سو موٹو لینا چاہیئے۔ جج ارشد ملک نے کہا کہ میں اس معاملے کو دیکھ لیتا ہوں، آپ پر 302 کا کیس ہو تو آپ بھی کہنا شروع کردیں بری ہوجائیں گے۔
بعد ازاں احتساب عدالت نے نواز شریف کے وکلا کو باقاعدہ درخواست دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔