دنیا بھر میں موسمی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور اس کے بدترین اثرات کو دیکھتے ہوئے ان سے بچاؤ اور مطابقت کے لیے نئے نئے منصوبے بنائے جارہے ہیں اور انہی میں سے ایک ’تیرتا ہوا شہر‘ بھی ہے جو جلد حقیقت بننے والا ہے۔
کچھ عرصے پہلے اس کا تصور پیش کیے جانے کے بعد اسے دیوانے کی بڑ قرار دیا گیا تھا، تاہم اب اقوام متحدہ نے خود اس منصوبے کی سرپرستی لے لی ہے اور اسی دہائی میں یہ منصوبہ مکمل کردیے جانے کا امکان ہے جس کے بعد تیرتے ہوئے شہر ایک حقیقت بن جائیں گے۔
اس شہر کی تعمیر سطح سمندر میں اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جارہی ہے، گلیشیئرز کے پگھلنے اور سمندر کی سطح بلند ہونے سے دنیا کے 90 فیصد شہروں کے زیر آب آجانے کا خدشہ ہے۔
منصوبے کے ابتدائی خاکے کے مطابق یہاں ہزاروں افراد کے رہنے کے لیے گھر ہوں گے، جبکہ یہاں ٹاؤن اسکوائرز اور مارکیٹس بھی بنائی جائیں گی۔
اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں ہونے والی ایک میٹنگ میں اس منصوبے کی تکمیل کے لیے 10 سال کا عرصہ پیش کیا گیا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ شہرسونامی اور دیگر خطرناک سمندری طوفانوں کے دوران قائم رہ سکیں گے؟
اس حوالے سے پروجیکٹ کی ٹیم میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے شعبہ اوشیئن انجینئرنگ کے ساتھ بھی کام کر رہی ہے اور ان کی کوشش ہے کہ اس شہر کو ایسا بنایا جائے کہ یہ درجہ 5 کے طوفانوں میںبھی قائم رہ سکے۔
کہا جارہا ہے کہ اس طرح کے تعمیراتی منصوبے بنانے کا مقصد کلائمٹ چینج کی اصل وجوہات اور انہیں کم کرنے کے اقدامات سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہیں۔
ایک اور خدشہ یہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ منصوبہ صرف امرا کے لیے مخصوص ہوجائے گا جیسا اس سے قبل دبئی میں ہوچکا ہے اور غریب افراد زمین پر کلائمٹ چینج کے شدید اثرات سہنے کے لیے رہ جائیں گے۔
مذکورہ عالیشان منصوبے کے حوالے سے پیش رفت اقدامات جلد سامنے آنے شروع ہوجائیں گے۔