تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

نرسنگ کو وقار اور اعتبار بخشنے والی فلورنس

فلورنس نے مالی طور پر مضبوط، آسودہ اور ایک نہایت خوش حال گھرانے میں جنم لیا تھا، یہ 1820 کی بات ہے۔ والد زمیں دار اور والدہ سیاسی اور سماجی میدان میں معروف اور نہایت متحرک تھیں۔

انھوں نے اپنی بچی کا نام فلورنس نائٹ انگیل رکھا۔ اس دور کے رواج کے مطابق گھر پر فلورنس نے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اس دوران دیکھا کہ اس کے والدین رحم دل اور خدا ترس ہیں، وہ سماج کے کم زور اور کم تر طبقے کی مدد اور ان سے تعاون کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی یہی درس دیتے ہیں۔

یہی جذبہ فلورنس کے اندر بھی پروان چڑھا۔ وہ نرم دل اور دوسروں کی مدد گار ثابت ہوئی۔ اس جذبے سے سرشار فلورنس کو ان کی سماجی خدمات کی وجہ سے دنیا بھر میں نہایت عزت اور احترام حاصل ہے۔

وہ دنیائے طب میں نرسنگ کے شعبے کی بانی ہیں۔ فلورنس نے اس وقت اس شعبے کا چناؤ کرتے ہوئے مریضوں کی دیکھ بھال اور مرہم پٹی کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ انھوں نے دُکھی انسانیت کی خدمت کو اپنا شعار بنا لیا۔

فلورنس نائٹ انگیل نے کئی ماہ تک ایک اسپتال میں مریضوں کی دیکھ بھال اور خدمت کی جس پر ان کے خاندان کی جانب سے انھیں اور ان کے والدین کو شدید تنقید اور مخالفت سہنا پڑی۔

یہ وہ زمانہ تھا جب عورتوں کا کام کرنا اور ان کے گھروں سے باہر رہنے کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔ نرسنگ کے باقاعدہ شعبے کا تو تصور ہی نہیں تھا اور ایسے لوگوں کو حقیر اور معمولی کہا جاتا تھا۔

ان حالات میں کسی امیر کبیر گھرانے سے تعلیم یافتہ عورت کا یوں مریضوں کے ساتھ وقت گزارنا اور ان کی خدمت کرنا کیسے قابلِ قبول ہوتا، مگر فلورنس نائٹ انگیل نے نہ صرف اس شعبے کا انتخاب کیا بلکہ ہر قسم کی مخالفت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

اس نوجوان مسیحا نے ہر رکاوٹ اور مشکل کو عبور کرکے نرسنگ کے شعبے کو باعزت اور قابلِ احترام بنایا۔

فلورنس نے صرف نرس کے طور پر کام نہیں کیا بلکہ ایک قابل اور پڑھی لکھی عورت ہونے کے ناتے اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے اسپتالوں اور مریضوں سے متعلق معلومات جمع کیں اور صحتِ عامہ کے مسائل کو اجاگر کیا۔

انھوں نے اس ضمن میں کام کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے باقاعدہ اداروں اور تنظیموں کی بنیاد رکھی اور نرسوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔

1910 میں وہ ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہوگئیں، مگر آج بھی ان کا جذبہ خدمت اور انسانوں سے ہم دردی کا درس انھیں سب کے دلوں میں زندہ رکھے ہوئے ہے۔

Comments

- Advertisement -