ہزاروں سال پرانی وہ داستانیں جو سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہیں، انسانی ترقی کے مختلف ادوار میں قلم کے ذریعے کاغذ پر منتقل ہوکر کتابی شکل میں ہم تک پہنچیں۔ یہ داستانیں اور قصّے آج ہم حیرت و استعجاب کے ساتھ بہت شوق سے سنتے ہیں۔ یہ ایک ایسی ہی داستان ہے جو صدیوں سے سنی جا رہی ہے۔ ٹیکسلا کی قدیم تہذیب میں مٹی تلے دب جانے والا ایک شہر سرکپ بھی ہے جس سے کئی کہانیاں منسوب ہیں۔ آج سرکپ تو کھنڈر بن چکا ہے مگر اس کی لوک کہانیاں ابدی حیثیت اختیار کرچکی ہیں۔ قدیم شہر سرکپ کی پہاڑی پر واقع ایک اسٹوپا راج کونال سے منسوب ہے جس سے جڑی ہوئی ایک کہانی بہت مشہور ہے اور ظاہر ہے کہ اس کی حقیقت کوئی نہیں جانتا۔ محققین کے مطابق راج کونال اشوک کا بیٹا اور موریہ سلطنت کے بانی چندر گپت موریہ کا پڑپوتا تھا۔
یہ داستان کچھ اس طرح ہے کہ اشوک کی پہلی بیوی کے بطن سے ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام کونال رکھا گیا۔ وقت بیتا اور کونال جوانی کی دہلیز پر آن کھڑا ہوا۔ اشوک نے دوسری شادی کی تو وہ کونال پر فریفتہ ہو گئی۔ کونال خوب صورت بھی تھا اور اپنی رحم دلی کے لیے بھی مشہور تھا۔ سوتیلی ماں اسے چاہنے لگی تھی۔ ایک روز کونال کو اس کی سوتیلی ماں تشتیار کشٹیا نے اپنی جانب راغب کرنا چاہا مگر کونال نے اسے جھڑک دیا۔ وہ عورت برہم ہوگئی اور اس نے موریہ سلطنت کے شہزادے یعنی کونال سے اپنی بےعزتی کا بدلہ لینے کی ٹھانی۔
اس نے ایک منصوبہ بنایا اور اپنے شوہر اشوک سے کہا کہ ’آپ اپنے بیٹے راج کونال کی اس سلطنت کے تخت کے لیے تربیت شروع کریں، اور اس کے لیے اسے اپنی راجدھانی کے سب سے اہم مقام ٹیکسلا کا گورنر بنا دیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ خود کو ضرور اہل ثابت کرے گا۔‘
بادشاہ کو یہ تجویز پسند آئی۔ اس نے راج کونال کو بلا کر اپنے فیصلے سے آگاہ کیا اور ساتھ ہی چند نصیحتیں بھی کیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ جب کبھی تمھیں میرا کوئی حکم نامہ ملے تو پہلے اس کی تصدیق میرے دانتوں کی مہر سے کرنا کیونکہ اس کی نقل کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔ اس کے بعد راج کونال کو گورنر ٹیکسلا مقرر کرنے کا حکم دیا اور شہزادہ کو وہاں بھیج دیا۔
ملکہ یعنی کونال کی سوتیلی ماں کو اب اپنے منصوبے کے دوسرے حصّے پر عمل کرنا تھا۔اس نے بادشاہ کی طرف سے ایک حکم نامہ تحریر کیا اور جب بادشاہ سو رہا تھا تو اس کے دانتوں کی مہر حکم نامہ پر ثبت کر دی۔ یہ جعلی حکم نامہ اس نے قاصد کو تھمایا اور اسے ٹیکسلا کے گورنر کونال کی طرف بھیجا۔ قاصد نے وہ حکم نامہ وہاں پہنچا دیا۔ کونال نے تحریر پڑھی تو پریشان ہوگیا۔ اس میں لکھا تھا کہ گورنر کی حیثیت سے تمھاری کارکردگی ناقص رہی ہے اور بادشاہ سزا کے طور پر تمھاری دونوں آنکھیں نکال دینے کا حکم دیتا ہے۔
درباریوں نے شہزادے کو کہا کہ اس پر عمل درآمد سے پہلے ضروری ہے کہ اس حکم کی تصدیق کرلی جائے، مگر شہزادے نے کہا کہ اس پر اس کے باپ کے دانتوں کی مہر ثبت ہے اس لیے یہ جعلی نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اس کی دونوں آنکھیں نکال دی گئیں اور آنکھیں نکالنے کے بعد کونال اور اس کی بیوی کو دیس نکالا دے دیا گیا۔ وہ مارے مارے پھرتے رہے اور بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئے۔ وہ لوگوں سے مانگ کر اپنا پیٹ بھرتے اور جیسے تیسے گزارہ کرتے۔ ایک دن یہ مجبور جوڑا اس شہر جا پہنچا جہاں اشوک کا پایۂ تخت تھا۔ شہزادہ کونال بڑی ہی پُرسوز اور بلند آواز میں صدا لگاتا تھا۔
ایک رات بادشاہ سویا ہوا تھا کہ اس کے کان میں ایک ایسی آواز پڑی جو اسے بہت مانوس لگی۔ اس کا دل یہ آواز سن کر بے چین سا ہوگیا تھا۔ اس نے فوراً دربانوں کو حکم دیا کہ اس بھکاری کو بادشاہ کے روبرو کیا جائے۔ دربان کونال کو پکڑ کر لے آئے۔ اس پر نظر پڑتے ہی بادشاہ کے قدموں سے گویا زمین ہی نکل گئی۔ اس کے سامنے اس کا بیٹا راج کونال کھڑا تھا۔
بادشاہ حیران ہوا کہ اپنی بادشاہی میں وہ اپنے بیٹے کے حال سے بھی بے خبر ہے۔ اس نے کونال کو لپٹا لیا اور اس سے سارا ماجرا سنا۔ بادشاہ نے سب سے پہلے اپنی ملکہ سے پوچھ گچھ کی اور وہ اپنے کیے کو چھپانے سے قاصر رہی۔ اس نے اقرارِ جرم کرلیا اور بادشاہ نے اسے پھانسی دے دی۔ اب اس نے اپنے بیٹے کی بینائی بحال کروانے کے لیے جتن شروع کر دیے۔ وہ شہزادے کو لے کر آشوا گھوشا نامی ایک بھکشو کے پاس گیا اور اس سے دعا کی درخواست کی۔ کہتے ہیں کہ بھکشو کی دعا سے شہزادے کی بینائی بحال ہو گئی اور اسی مقام پر اشوک بادشاہ نے راج کونال کے نام سے سرکپ میں ایک اسٹوپا بنوا دیا۔ یہ جگہ اتنی مشہور ہوئی کہ نابینا اور امراضِ چشم میں مبتلا لوگ یہاں دعا کرنے کے لیے اکٹھا ہونے لگے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک سرکپ مٹی تلے دفن نہیں ہوگیا۔