چین کے کسی گاؤں میں ایک بوڑھی عورت رہتی تھی۔ ہر روز وہ اپنے گھر سے مٹی کے دو برتنوں میں پانی لینے قریبی نہر پر جاتی تھی۔ وہ برتنوں کو لکڑی کے نسبتاً لمبے ٹکڑے کے ساتھ لٹکا کر اس لکڑی کو کندھے پر دھر لیتی، یوں پانی کے بھرے ہوئے برتنوں کا وزن ڈھونے میں اسےآسانی ہو جاتی تھی۔
اس بوڑھی عورت کا ایک برتن تو صحیح سلامت تھا لیکن دوسرے میں دراڑ پڑ چکی تھی جس سے پانی بہنے لگا تھا، اور نہر سے گھر تک آتے آتے اس میں پانی آدھا رہ جاتا تھا۔
یہ سلسلہ دو برس تک یوں ہی چلتا رہا۔ گھر لوٹنے تک ایک برتن تو بھرا ہوا رہتا لیکن دوسرے میں آدھا پانی ہی بچتا تھا۔ بوڑھی عورت اتنی مشقت بھی اٹھاتی لیکن مٹی کے برتن میں دراڑ پڑ جانے کی وجہ سے اس کی یہ محنت ضایع ہوجاتی تھی۔ جو برتن صحیح سلامت تھا وہ اس کے اندر تکبر اور رعونت کا احساس پیدا ہو گیا تھا جب کہ ٹوٹا ہوا برتن احساس کمتری کا شکار ہو کر شرمندگی محسوس کرنے لگا تھا۔
آخر دو سال گزر گئے تو ایک روز دراڑ شدہ برتن کی برداشت جواب دے گئی، اسے بڑی ذلّت محسوس ہوئی کہ بوڑھی عورت اتنی محنت سے پانی لاتی ہے اور اس میں جو شگاف پڑ چکا ہے اس کی وجہ سے اتنا سارا پانی راستے میں ضائع ہو جاتا ہے۔
آخر یہ شگاف والا برتن اس عورت سے کہنے لگا: "میں بہت شرم سار ہوں کہ تم جو پانی میرے اندر بھرتی ہو اس میں سے آدھا راستے میں بہہ جاتا ہے اور تم اسی طرح گھر پہنچ جاتی ہو، یہ کہہ کر وہ دکھ سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔”
اس کی بات سن کر وہ بوڑھی عورت مسکرائی اور بولی کہ تم نے غور نہیں کیا، میرے کندھے پر رکھی ہوئی لکڑی کے جس کونے سے تم لٹک کر آتے ہو، اس طرف راستے میں سبزہ اور رنگ برنگے پھول ہیں لیکن دوسری جانب کوئی پھول نہیں ہیں۔ میں اس سے آگاہ ہوں کہ تم میں ایک نقص ہے اور اس چھوٹے شگاف سے پورے راستے پانی بہتا رہتا ہے، تم کو یاد ہو گا کہ ایک دن میں نے تمہارے والے راستے میں پھولوں کے بیج ڈال دیے تھے جن سے اگنے والے پھول آج تم دیکھ ہی سکتے ہو، پورے دو سال میں یہ پھول توڑ کر اپنے گھر کو سجاتی رہی اور اب میرا گھر پھولوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ دوسرا برتن تو بس مجھے پانی ہی دیتا رہا جب کہ تم نے تو مجھے پانی بھی پہنچایا اور پھولوں سے میری منزل اور راستہ بھی سجا دیا۔ اس لیے تم کو شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے تم تو بہت کمال کے برتن ہو۔
یہ سن کر خود کو کم تر سمجھنے والا اور اپنے نقص پر شرم سار برتن خوشی سے جھوم اٹھا اور فخر سے سالم برتن پر ایک نگاہ ڈالی جو اب اس سے نظریں چرا رہا تھا۔