پیر, جون 16, 2025
اشتہار

کپڑے کا نقص اور جعلی دینار

اشتہار

حیرت انگیز

ایک مرتبہ کوئی گھڑ سوار اپنی سواری کو سرپٹ دوڑاتے ہوئے شہر مکّہ کے راستے پر جارہا تھا۔ لوگوں نے دیکھا کہ اس کے بال گرد و غبار سے اَٹے ہوئے ہیں اور لگتا تھا کہ وہ کئی میل کی مسافت طے کرتا ہوا یہاں سے گزرا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اسے کسی قافلے کی تلاش ہے۔ کیوں کہ وہ اِدھر اُدھر نظریں دوڑاتے ہوئے تیزی سے آگے نکل رہا تھا۔

لوک کہانیاں اور حکایات پڑھنے کے لیے لنک کھولیں

کئی کوس آگے جانے کے بعد اس گھڑ سوار کو چند راہ گیر نظر آئے تو اس نے اپنا گھوڑا روک لیا اور ان سے کسی قافلے کے بارے میں دریافت کیا۔ کسی نے بتایا کہ اس طرف لوگوں کے ایک قافلے کو جاتے ہوئے دیکھا ہے تو اس نے اپنے گھوڑے کو اسی سمت دوڑا دیا۔ کچھ دور جا کر اسے وہی قافلہ مل گیا جس کی تلاش میں وہ میلوں کا سفر کر کے آیا تھا۔ مقصود کو اتنا قریب دیکھ کر اس کا مرجھایا ہوا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔ اس نے ایک شخص کو مخاطب کر کے اس سے پوچھا: ”کیا آپ نے احمد بن طبیب سے کپڑا خریدا تھا؟“

اس شخص نے گھڑ سوار کو دیکھا اور کچھ تجسس سے بولا، ”جی ہاں! میں نے خریداری کی تھی۔“

”دراصل بات یہ ہے کہ میرے دلال احمد بن طبیب نے آپ کو کپڑا بیچ کر پیسے مجھے دیے تو میں نے اس سے پوچھا کہ کپڑا کسے بیچا ہے؟………..اس نے بتایا کہ ”ایک مسافر کو۔“

”میں نے استفسار کیا کہ کیا اس کپڑے کا فلاں عیب اسے بتا دیا تھا؟“ اس پر احمد بن طبیب نے کہا کہ ”وہ تو مجھے یاد ہی نہیں رہا۔“

نوجوان گھڑ سوار ایک لمحے کو چپ ہوا اور پھر بولنا شروع کیا کہ یہ سن کر مجھے بے حد پریشانی ہوئی، میں اس پر غصے ہوا تو اس کا کہنا تھا، ”میں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا بلکہ یہ نسیان کے سبب ہوا، اس لیے جو کچھ ہوا آپ اسے بھول جائیے! آئندہ میں احتیاط کروں گا۔“ لیکن میں اس کے سَر ہو گیا۔ اسے آپ کا پتہ معلوم کرنے کو کہا، بڑی مشکل سے پوچھ تاچھ کی تو آپ کا کچھ ٹھکانہ معلوم ہوا لیکن جب میں اس پتے پر آپ سے ملنے پہنچا، تو معلوم ہوا کہ آپ حاجیوں کے قافلے کے ساتھ مکہ معظمہ روانہ ہو چکے ہیں۔ میں نے ایک برق رفتار گھوڑا کرائے پر لیا اور آخرکار آپ کے سامنے کھڑا ہوں تاکہ آپ کو بتا سکوں کہ کپڑے میں یہ نقص ہے۔

قافلے کے سبھی لوگ اس نوجوان تاجر کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ وہ خریدار جو اس قافلے کے ساتھ حج کے لیے جارہا تھا، ایک عجیب احساس میں گھر چکا تھا۔ وہ کبھی کپڑے کو دیکھتا اور کبھی میلوں دور تک اپنی تلاش میں آنے والے اس تاجر کو، جو محض کپڑے کا نقص بتانے کے لیے اتنی تکلیف اٹھا چکا تھا۔ وہ کچھ دیر خاموش کھڑا رہا اور پھر کہنے لگا ”کیا وہ دینار جو میں نے آپ کے دلال احمد کو دیے تھے وہ آپ کے پاس ہیں؟“

تاجر نے جواب دیا ”ہاں یہ لیں۔“ مسافر نے وہ دینار لیے اور دور پھینک دیے اور دوسرے دینار نکال کر اس نوجوان تاجر کی طرف بڑھا دیے۔ تاجر نے حیرت زدہ لہجے میں پوچھا کہ وہ دینار آپ نے کیوں پھینک دیے؟

مسافر نے جواب دیا کہ ”وہ کھوٹے تھے، لیکن آپ کی راست گوئی اور دیانت داری دیکھ کر میرے ضمیر نے ملامت کی اور مجھے یہ اعتراف کرنے پر آمادہ کیا ہے۔ میں نے آپ کے ساتھ دھوکا کیا، لیکن اب جب کہ آپ نے دیانت داری کا ایسا مظاہرہ کیا ہے تو میں کیسے پیچھے رہ سکتا ہوں۔ مجھے یہ کپڑا نقص کے ساتھ قبول ہے اور اس کی قیمت حاضر ہے۔“

(دل چسپ، سبق آموز اور انوکھے واقعات پر مشتمل ایک کتاب سے انتخاب)

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں