بعض اوقات کچھ جسمانی علامتوں سے انسان کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس کی اندرونی کیفیت کیا ہے؟ لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ کے ساتھ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو بظاہر کسی بیماری کی علامت تو نہیں ہوتیں البتہ وہ ایک بیماری ہی ہوتی ہے۔
اس کی ایک مثال ’پروسوپاگنوزیا‘ہے جس میں شناسا لوگ بھی اجنبی لگتے ہیں اور ذہن پر دباؤ ڈالنے کے باوجود ان کے چہروں کو پہچاننا مشکل ہوجاتا ہے۔
ایسی کیفیت میں مریض جب کسی شخص کو دیکھتا ہے تو سوچتا ہے کہ یہ کون ہے؟ کیا میں اسے جانتا ہوں یا نہیں؟ اور اگر جانتا ہوں تو اس کا مجھ سے کیا رشتہ ہے یا اس کا نام کیا ہے۔
اگر آپ بھی کسی کے چہرے کو یاد نہیں رکھ پاتے تو جان لیں کہ اس کیفیت کو نفسیات کی زبان میں ’پروسوپاگنوسیا‘ کہا جاتا ہے، اس کیفیت میں ایسا بھی ممکن ہے کہ چہرہ تو یاد رہے لیکن شناخت کرنا مشکل ہو۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق بھارتی نیورو لوجسٹ ڈاکٹر سونیا لال گپتا کا کہنا ہے کہ یہ کیفیت موروثی یا دماغی چوٹ کا نتیجہ بھی ہوسکتی ہے۔ یہ کیفیت تب پیدا ہوتی ہے جب دماغ کے دائیں طرف کے حصے کو خون کی فراہمی میں کمی ہوجائے کیونکہ دماغ کا یہی حصہ چہروں کو یاد رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اس کیفیت کی بہت سی اور علامات بھی ہوسکتی ہیں جیسے کہ چند لوگوں کو مانوس اور غیر مانوس چہرے پہچاننے میں مشکل ہوتی ہے تو کچھ لوگ کسی چہرے اور کسی شے کے درمیان تفریق نہیں کر پاتے۔
اس کیفیت میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگ خود اپنی شکل ہی نہیں پہچان پاتے، اس کے علاوہ اس بیماری سے متاثرہ چند افراد چہروں کے تاثرات نہیں پہچان پاتے یا انہیں فلموں یا ٹی وی پر اداکاروں کو پہچاننے میں مشکل درپیش ہوتی ہے۔
ہاورڈ میڈیکل اسکول کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا میں ہر 33 میں سے ایک فرد اس کیفیت سے کسی نہ کسی حد تک متاثر ہے یعنی دنیا کے تقریباً 3.8 فیصد لوگ پروسوپاگنوزیا کے مسائل کا شکار ہیں۔
اس کیفیت میں مریض کیا کرے؟
یاد رہے کہ ایسی کیفیت سے متاثرہ افراد چند ایسی عادات اپناسکتے ہیں جن سے ان کی زندگی بہتر ہو سکتی ہے۔
بھارت کے مقامی اسپتال میں شعبہ نفسیات کی سربراہ ڈاکٹر روپالی شیوالکر نے اس مسئلے کا حل بتاتے ہوئے کہا کہ کسی سے ملاقات سے پہلے انہیں اپنی کیفیت کے بارے میں آگاہ کریں، دوستوں کو بتائیں کہ جب بھی وہ آپ سے ملیں تو وہ اپنا تعارف کروائیں۔
اس کے علاوہ کسی سے ملاقات کریں تو اُن سے کہیں کہ وہ اپنے بارے میں آپ کو آگاہ کریں کہ وہ کون ہیں اور لوگوں کو ان کے چہرے کے بجائے ان کی آواز اور حرکات کی مدد سے پہچاننے کی کوشش کریں۔