جمعہ, نومبر 22, 2024
اشتہار

نیب ترامیم کیس : بانی پی ٹی آئی کو بذریعہ ویڈیو لنک سپریم کورٹ میں پیش کردیا گیا

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد : نیب ترایم کیس میں بانی پی ٹی آئی کوبذریعہ ویڈیو لنک سپریم کورٹ میں پیش کردیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کالعدم قراردینےکیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کا آغاز ہوگیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ سماعت  کی، جسٹس امین الدین،جسٹس جمال مندوخیل ،جسٹس اطہر من اللہ ،جسٹس حسن رضوی بینچ کا حصہ ہیں۔

- Advertisement -

بانی پی ٹی آئی ویڈیو لنک کے ذریعے ہلکے نیلے رنگ کی شرٹ پہن کر پیش

بانی پی ٹی آئی کوبذریعہ ویڈیو لنک سپریم کورٹ میں پیش کردیاگیا، نیب ترامیم کالعدم قراردینےکیخلاف اپیلوں پر سماعت براہ راست نشر نہیں کی جارہی، سپریم کورٹ کا 5رکنی بینچ سماعت براہ راست دکھانے کا فیصلہ کرے گا۔

اس موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے ہیں ، سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کےکورٹ روم میں وکلا کا داخلہ بند کردیا گیا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلالیا

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلالیا ، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان عدالت کے سامنے پیش ہوگئے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کیا اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست سماعت کیلئے منظور ہوچکی؟ کیا نیب ترامیم کیخلاف ہائیکورٹ میں درخواست اب بھی زیر التوا ہے؟

چیف جسٹس نے سوال کیا اٹارنی جنرل صاحب کیا ویڈیو لنک قائم ہوگیا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا جی بالکل ویڈیو لنک چل رہا ہے۔

حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے دلائل میں کہا کل میں نے چیک کیا تھا، درخواست اب تک زیر التوا ہے۔

بانی پی ٹی آئی ویڈیو لنک کے ذریعے ہلکے نیلے رنگ کی شرٹ پہن کرموجود ہیں، خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے۔

بطور وکیل آپ نے فیس کا بل جمع کرایا؟ چیف جسٹس کا خواجہ حارث سے استفسار

چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کیا بطور وکیل آپ نے فیس کا بل جمع کرایا؟ وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ مجھے فیس نہیں چاہیے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ تمام وکلاسے سینئر ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ سے نیب ترامیم کیس پر سماعتوں کاحکم نامہ طلب

وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیب ترامیم کا معاملہ زیرالتواہے، جی اسے قابل سماعت قرار دے دیا گیا تھا، جس کے بعد عدالت نے اسلام آبادہائیکورٹ سے نیب ترامیم کیس پرسماعتوں کاحکم نامہ طلب کرلیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ سے نیب ترامیم کیخلاف کیس کا مکمل ریکارڈ منگوا لیں ، مخدوم علی خان صاحب اونچی آواز میں بولیں تاکہ بانی پی ٹی آئی بھی سن سکیں۔

یب ترامیم کیس کی بانی پی ٹی آئی کے سابقہ وکیل خواجہ حارث بھی روسٹرم پر آگئے ، چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے مکالمے میں کہا کہ آپ اصل کیس میں وکیل تھے ، آپ کے نہ آنے پر مایوسی تھی ، ہم آپ کے مؤقف کو بھی سننا چاہیں گے۔

مخدوم علی خان نے عدالت میں بانی پی ٹی آئی کی درخواست کی گراؤنڈ پڑھیں

مخدوم علی خان نے عدالت میں بانی پی ٹی آئی کی درخواست کی گراؤنڈ پڑھیں اور کہا کہ 19جولائی 2022 کو درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری ہوئے، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا مرکزی کیس کی کل کتنی سماعتیں ہوئیں؟ تو وکیل مخدوم علی نے بتایا کہ مرکزی کیس کی مجموعی طور پر 53 سماعتیں ہوئی تھیں۔

چند ترمیم سے متعلق کیس سننے میں اتنا زیادہ عرصہ کیوں لگا،چیف جسٹس

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ اتنا طویل عرصے تک کیس کیوں چلا، کیا آپ نے کیس کو طول دیا، جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ زیادہ وقت دلائل میں درخواست گزار نے لیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے 1999میں نیب قانون بنانے میں کتنا وقت لگا تھا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ مارشل لا کے فوری بعدایک ماہ کے اندر نیب قانون بن گیاتھا تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے بڑے تعجب کی بات ہےکہ نیب ترامیم کیس 53  سماعتوں تک چلایا گیا، چند ترمیم سے متعلق کیس سننے میں اتنا زیادہ عرصہ کیوں لگا، مخدوم علی خان آپ کیس میں موجودتھے اتنا عرصہ کیوں لگا دیا۔

مخدوم علی خان نے بتایا کہ کیس قابل سماعت ہونے کی بحث میں ہی کافی وقت لگا، چیف جسٹس نے استفسار کیا ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہوتے ہوئے یہ کیس سپریم کورٹ میں کیسےقابل سماعت ہوا ؟ کیا مرکزی کیس کے فیصلے میں عدالت نےاس سوال کاجواب دیا تھا؟ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ جی ہاں عدالت نے فیصلے میں اس معاملے کا ذکرکیا تھا۔

حکومتی وکیل نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا متعلقہ پیراگراف عدالت میں پڑھ کر سنایا

حکومتی وکیل نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا متعلقہ پیراگراف عدالت میں پڑھ دیا، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے 2023 میں الیکشن کیس ایسی ہی وجوہات پرہم دو ججز نے ناقابل سماعت کردیاتھا ، ہم نے کہا تھا جو کیس ہائیکورٹ میں زیر التواہےاس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ تب لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر عمل ہوتا تو الیکشن بروقت ہو جاتے، لاہور ہائیکورٹ بار نے جو الیکشن کافیصلہ دیا اس کے خلاف انٹراکورٹ حکم جاری نہیں ہواتھا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ الیکشن کے معاملے پر سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا اس کا آرڈر آف کورٹ کہاں ہے؟ جس پر مخدوم علی خان نے بتایا کہ میرا خیال ہے کہ وہ آرڈر اسی نکتے پر اختلاف کی وجہ سے جاری نہیں ہوا۔

چیف جسٹس کا جسٹس اطہر من اللہ کے ساتھ مسکراتے ہوئے مکالمہ

چیف جسٹس نے جسٹس اطہر من اللہ کے ساتھ مسکراتے ہوئے مکالمے میں کہا کہ آپ جب میرے ساتھ بینچ میں بیٹھے ہم نے تو 12  دن میں الیکشن کرادیئے، آپ جس بینچ کی بات کررہے ہیں اس میں خوش قسمتی یابدقسمتی سے میں نہیں تھا۔

بانی پی ٹی آئی کی اپنے چہرے پرتیزروشنی پڑنے کی شکایت

بانی پی ٹی آئی نے ساتھ موجود پولیس اہلکاروں کو پاس بلایا اور اپنے چہرے پرتیزروشنی پڑنے کی شکایت کی ، جس پر ویڈیو لنک پر پولیس اہلکاروں نے لائٹ کو ایڈجسٹ کر دیا۔

وکیل مخدوم علی خان نے دلائل میں کہا کہ بینظیر بھٹو کیس جیسے مختلف فیصلے بھی موجود ہیں، ہائیکورٹ میں زیرسماعت درخواست سپریم کورٹ نہیں سن سکتی، نیب ترامیم کیس بھی سپریم کورٹ میں قابل سماعت نہیں تھا، ہم نے کیس ناقابل سماعت ہونے کا معاملہ عدالت میں اٹھایا تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کمرہ عدالت میں سرگرشیوں پر اظہار برہمی

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کمرہ عدالت میں سرگرشیوں پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ جس نےباتیں کرنی ہیں وہ کمرہ عدالت سے باہر چلے جائیں۔

ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو اپنی جگہ پربیٹھنے کی ہدایت

ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے کہا کہ سر عدالتی کارروائی براہ راست نشر نہیں ہورہی ، جس پر چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو اپنی جگہ پربیٹھنے کی ہدایت کردی۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے بعد نیب ترامیم کی کتنی سماعتیں ہوئیں، چیف جسٹس کا سوال

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا نفاذ کب ہوا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے بعد نیب ترامیم کی کتنی سماعتیں ہوئیں، وکیل مخدوم نے بتایا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے بعدکافی سماعتیں ہوئیں۔

دوران سماعت ایک وکیل روسٹرم پر آئے اور کہا کہ یہ کارروائی براہ راست نشر نہیں کی جارہی ، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں اس وقت دلائل چل رہے ہیں تو وکیل کا کہنا تھا کہ ہم صرف آپ کے نوٹس میں لانا چاہتے تھے، چیف جسٹس نے وکیل کو واپس بیٹھا دیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا، پریکٹس اینڈ پروسیجرمعطل کرنادرست تھایاغلط ،اس عدالت کے حکم سےمعطل تھا۔

مجھے کوئی قانون پسندنہیں تو اسے معطل کردوں کیا یہ دیانتداری ہے ، چیف جسٹس

چیف جسٹس کا بھی کہنا تھا کہ قوانین کو اس طرح سے معطل کیا جاتا رہا تو ملک کیسے ترقی کرے گا، ہم کب تک اس بے وقوفانہ دور میں رہتے رہیں گے، مجھے کوئی قانون پسندنہیں تو اسے معطل کردوں کیا یہ دیانتداری ہے، کیا ہم کبھی بطور ملک آگے بڑھ سکیں گے ؟ ایک قانون معطل کر کے پھر روزانہ کیس کو سن کرفیصلہ تو کرتے، کیا قانون معطل کرکےبینچ اسکے خلاف بناکردیگر مقدمات سنتے رہنا کیا یہ استحصال نہیں، ہم قانون توڑیں یا ملٹری توڑے ایک ہی بات ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بل کی سطح پر قانون کو معطل کرناکیا پارلیمانی کارروائی معطل کرنے کے مترادف نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اچھا تھا یا برا لیکن پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کوعدالت نے معطل کر رکھا تھا، ایکٹ معطل ہونے کے  سبب کمیٹی کاوجود نہیں تھا، جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ بینچ کے ایک رکن جسٹس منصور علی شاہ نے پریکٹس اینڈ پروسیجرپررائے دی ، انھوں نے رائےدی پریکٹس اینڈ پروسیجر طے کئےبغیر نیب کیس پرکارروائی آگے نہ بڑھائی جائے۔

وکیل مخدوم علی خان نے چیف جسٹس سے مکالمے میں کہا کہ آپ نے بطور سینئرترین جج یہ نقطہ اٹھایاتھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مخدوم علی خان آپ اسے چھوڑیں کیا آپ کا اپنا کوئی نقطہ نظر نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں مزید کہا کہ اپیل متاثرہ فریق دائرکرسکتا ہے اوروہ کوئی بھی شخص ہوسکتا ہے، حکومت اس کیس میں متاثرہ فریق کیسے ہے؟ پریکٹس اینڈپروسیجر کےتحت اپیل صرف متاثرہ شخص لائے گا۔

جسٹس جمال مندوخیل کا بھی کہنا تھا کہ صرف متاثرہ شخص نہیں قانون کہتاہے متاثرہ فریق بھی لاسکتاہے، دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ دو تشریحات ہو سکتی ہیں کہ اپیل کا حق صرف متاثرہ فریق تک محدود کیا گیا، متاثرہ فریق میں پھربل پاس کرنیوالے  حکومتی بینچ کے ممبران بھی آسکتےہیں، اگر اس طرح ہوا تو ہمارے سامنے 150درخواست گزار کھڑے ہوں گے۔

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ کوئی مقدمہ عدالت آیا تو اسے روزانہ کی بنیاد پر سن کر فیصلہ کرنا چاہیے اور قانون کو معطل کرنا بھی نظام کے ساتھ ساز باز کرنا ہے، قانون معطل کرنے کے بجائے روزانہ سن کر فیصلہ کرنا چاہے تھا، جس پرجسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم میرٹ پر چلتے تو بہتر ہوتا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی شق 2کے تحت اپیل متاثرہ شخص کرسکتا ہے جبکہ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کسٹم ایکٹ کالعدم قرار دے تو کیا حکومت اپیل نہیں کرسکتی۔

حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ بالکل حکومت اپیل کرسکتی ہے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پھر آگے بڑھیں، مخدوم علی خان نے کہا کہ 2022کے فالو اپ پر2023 کی ترامیم بھی آئیں تھیں، عدالت نے فیصلے میں 2022 کی ترامیم ہی کالعدم قرار دی۔

بانی پی ٹی آئی نکات نوٹ کر لیں، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ تو آپ ٹیکنیکل اعتراض اٹھارہے ہیں تو مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ یہ ٹیکنیکل اعتراض بھی موجودہے، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم ان سوالات پر بانی پی ٹی آئی سےجواب لیں گے، بانی پی ٹی آئی یہ نکات نوٹ کر لیں۔

بانی پی ٹی آئی چیف جسٹس کی زیر لب مسکراہٹ دیکھ کر منہ پر ہاتھ رکھ کر مسکرا دیئے

بانی پی ٹی آئی چیف جسٹس کی زیر لب مسکراہٹ دیکھ کر منہ پر ہاتھ رکھ کر مسکرا دیئے، مخدوم علی خان نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی وزیر اعظم تھے قانون بدل سکتے تھے مگرآرڈیننس لائے، نیب ترامیم کامعاملہ پارلیمانی تنازع تھاجسےسپریم کورٹ لایا گیا، یہ ملی بھگت سےمعاملہ سپریم کورٹ لایاگیا۔

عدالت نے وکیل مخدوم علی خان کو ایسے الفاظ استعمال کرنے سے روک دیا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا کسی بل پرکوئی پارٹی رکن اپنی پارٹی فیصلےکیخلاف ووٹ دےسکتا ہے تو چیف جسٹس کا کہنا گتھا کہ اس معاملے پر نظرثانی درخواست موجود ہے۔

مخدوم صاحب کرپشن کیخلاف مضبوط پارلیمان،آزاد عدلیہ ، بے خوف لیڈر ضروری ہے، جسٹس اطہر من اللہ

جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مخدوم صاحب کرپشن کیخلاف مضبوط پارلیمان،آزاد عدلیہ ، بے خوف لیڈر ضروری ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ تینوں چیزیں موجود ہیں، یہاں تو اسے ختم کرنے کیلئےکوئی اور آرڈیننس لایا جارہا ہے۔

آرڈیننس لانے ہیں تو پھر پارلیمنٹ کو بند کر دیں، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے آرڈیننس لانے ہیں تو پھر پارلیمنٹ کو بند کر دیں، آرڈیننس کے ذریعے آپ ایک شخص کی مرضی کو پوری قوم پر تھونپ دیتے ہیں، کیا ایسا کرنا جمہوریت کے خلاف نہیں، کیا آرڈیننس کے ساتھ تو صدر مملکت کو تفصیلی وجوہات نہیں لکھنی چاہئیں۔

پارلیمان کیساتھ بدنیتی منسوب نہیں کی جاسکتی، جسٹس اطہر من اللہ

جسٹس اطہر من اللہ کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ پارلیمان کیساتھ بدنیتی منسوب نہیں کی جاسکتی، آئین پارلیمان کو قانون سازی کا اختیار دیتا ہے، صدر اور آرڈیننس دونوں ہی پارلیمان کوجواب دہ ہیں، آرڈیننس منظوری کیلئے پارلیمان کو ہی بھیجا جاتا ہے۔

اگر صدر کہے مجھے رولز رائس چاہئے تو گاڑی فراہم کر دی جائے گی، چیف جسٹس

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر صدر کہے مجھے رولز رائس چاہئے تو گاڑی فراہم کر دی جائے گی، پارلیمان بعد میں مسترد کر دے تب بھی گاڑی توخریدی جا چکی ہوگی۔

بعد ازاں نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پرسماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردی گئی۔

Comments

اہم ترین

راجہ محسن اعجاز
راجہ محسن اعجاز
راجہ محسن اعجاز اسلام آباد سے خارجہ اور سفارتی امور کی کوریج کرنے والے اے آر وائی نیوز کے خصوصی نمائندے ہیں

مزید خبریں