ایک گدھ میرے پاؤں پر اپنی چونچ سے تابڑ توڑ حملے کر رہا تھا۔ میرے جوتے اور جرابیں وہ پھاڑ چکا تھا۔ اب اس کے حملوں کا ہدف میرے پاؤں تھے۔
وہ بار بار میرے پاؤں کا گوشت ادھیڑنے کی کوشش کرتا، زمین سے کچھ ہی اوپر بڑی بے چینی سے پرواز کرتے ہوئے میرے ارد گرد ایک چکر لگاتا اور پھر اپنے کام میں مصروف ہو جاتا۔
ایک شخص وہاں سے گزرا، تو پہلے اس نے کچھ دیر کے لیے یہ سارا منظر دیکھا، پھر مجھے پوچھنے لگا کہ میں اس گدھ کو کیوں برداشت کر رہا تھا۔
’’میں تو اپنا دفاع کر ہی نہیں سکتا،‘‘ میں نے کہا، ’’یہ آیا اور اس نے مجھ پر حملے کرنا شروع کر دیے۔ میں ظاہر ہے اس کو یہاں سے بھگا دینا چاہتا تھا۔ میں نے تو اس کا گلا دبانے کی بھی کوشش کی لیکن ایسے کسی جانور میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ یہ تو چھلانگ لگا کر میرے چہرے تک آ جانا چاہتا تھا۔ تب میں نے اپنے پاؤں ہی کی قربانی دینا بہتر سمجھا۔ اب تو وہ بھی قریب قریب چیتھڑے بن چکے ہیں۔‘‘
’’آپ نے اجازت ہی کیوں دی کہ آپ کو اس طرح اذیت پہنچائی جائے۔‘‘ اس شخص نے کہا، ’’ایک گولی اور گدھ کا کام تمام۔‘‘
’’کیا واقعی؟‘‘ میں نے پوچھا، ’’کیا آپ ایسا کرنا چاہیں گے؟‘‘
’’بڑی خوشی سے۔‘‘ اس شخص نے کہا۔ ’’مجھے صرف گھر جا کر اپنی بندوق لانا ہو گی۔ کیا آپ صرف آدھ گھنٹہ انتظار کر سکتے ہیں؟‘‘
’’یہ میں نہیں جانتا۔‘‘ میں نے کہا اور کچھ دیر کے لیے کھڑا ہو گیا، جیسے میں درد سے پتھرا گیا تھا۔
پھر میں بولا، ’’براہِ مہربانی، آپ یہ کوشش ضرور کیجیے۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ اس نے کہا، ’’میں بس گیا اور آیا۔‘‘
گدھ یہ ساری گفتگو سکون سے سنتا رہا تھا اور اس دوران اس کی نظریں بار بار میرے اور اس شخص کے درمیان حرکت میں رہی تھیں۔ اسی لمحے مجھ پر آشکار ہوا کہ وہ سب کچھ سمجھ گیا تھا۔
وہ اڑا، رفتار پکڑنے کے لیے تھوڑا سا نیچے ہو کر کافی پیچھے تک گیا اور نیزہ پھینکنے والے کسی کھلاڑی کی طرح اپنی چونچ سے وار کرتے ہوئے میرے منہ کے راستے میرے اندر دور تک اتر گیا۔
پیچھے گرتے گرتے مجھے محسوس ہوا کہ جیسے مجھے رہائی مل گئی تھی۔ وہ میرے اندر کی تمام گہرائیوں کو بھر دینے اور تمام کناروں سے باہر تک پھیل جانے والے خون میں یوں ڈوب گیا تھا کہ وہ بچ ہی نہیں سکتا تھا۔
(گزشتہ صدی کے بہترین ناول نگاروں میں سے ایک فرانز کافکا کی اس تمثیل کے مترجم مقبول ملک ہیں)