نوسر بازوں کے فراڈ بڑھ گئے ہیں اور اب ایک فون کال پر ہی لوگ اپنی قیمتی رقم سے محروم ہوجاتے ہیں اس حوالے سے شہری ہوشیار رہیں۔
جب سے دنیا بنی ہے نیکی اور بدی ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔ دھوکا دینا بھی انسانی فطرت کا حصہ ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نوسر باز اپنی دھوکا دہی کی وارداتوں میں بھی جدت لے آئے ہیں۔ ان کی حرکات و سکنات اور ہر چال میں اصل کا گمان ہوتا ہے اور اسی گمان میں لوگ لٹتے ہیں۔
آج کل فون پر شہریوں سے فراڈ کے ذریعے بھاری رقوم لوٹی جا رہی ہیں کہیں جعلساز بینک کا نمائندہ بن کر شہریوں سے فون پر ان کی معلومات لے کر انہیں قیمتی رقوم سے محروم کردیتا ہے تو کہیں انعامات کا لالچ دے کر لوٹا جاتا ہے۔ اس فراڈ کا شکار صرف سادہ لوح افراد ہی نہیں بلکہ پڑھا لکھا طبقہ بھی ہو رہا ہے۔
نوسر باز کس طرح بھولے بھالے افراد سے فراڈ کرکے انہیں زندگی بھر کی جمع پونجی سے محروم کرتے ہیں اور اس سے بچنے کے لیے کیا کیا جائے؟ اس حوالے سے سابق ڈی جی ایف آئی اے عمار جعفری نے اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخیر سویرا میں کئی اہم تجاویز شہریوں کو دی ہیں۔
عمار جعفری نے کہا کہ فراڈ اور دھوکے سے لوگوں کو ٹھگنا نیا نہیں صدیوں پرانا ہے۔ انگریزوں نے انیسویں صدی عیسوی میں اس سے بچنے کے لیے اینٹی ٹھگ قانون نافذ کیا تھا اب بدلتے وقت کے ساتھ لوٹنے کے انداز بھی بدل گئے ہیں۔ جعلساز لوگوں کی سوشل سرچنگ کرتے ہیں پھر انہیں اپنا نشانہ بناتے ہیں۔
آج کل فون کرکے لوٹنا عام ہوگیا ہے۔ فراڈی سچ اور جھوٹ کی ایسی آمیزش کرکے اپنا بیانیہ دیتے ہیں کہ سادہ لوح تو کیا اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد بھی ان کے دھوکے میں آجاتے ہیں اور اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی لٹا دیتے ہیں۔
سابق ڈی جی ایف آئی نے کہا کہ مقامی کرمنلز تنہا نہیں ہوتے بلکہ ان کے بھی باقاعدہ تھنک ٹینک ہوتے ہیں اور انہیں بیرون ملک سے گینگز سپورٹ کرتے ہیں۔ جدید آلات فراہم کیے جاتے ہیں۔ اب تو ایسے پراکسی سرور آگئے ہیں کہ جو ایسے نمبر بنا لیتے ہیں جو کسی کے پاس نہیں ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ جب سے بینکنگ ڈیجیٹلائز ہوئی ہے دھوکا دہی اور لوٹ مار بڑھ گئی ہے کیونکہ لوگوں کے پاس اس ترقی سے متعلق معلومات نہیں ہوتی جس کے باعث کرمنلز کے لیے وہ آسان شکار ہوتے ہیں۔ جب کہ ڈیجیٹل فراڈ بڑھنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جرم پکڑنے کے لیے ادارہ ایف آئی اے موجود ہے لیکن اس کی آگاہی کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔
اس ڈیجیٹل دھوکا دہی کی روک تھام کے لیے میڈیا سمیت تمام ادارے لوگوں کو آگاہی دیں اور شہری بھی کسی مشکوک کا غیر متوقع کال پر متعلقہ ادارے سے رابطہ کرکے شکایات درج کرائیں۔