اتوار, نومبر 17, 2024
اشتہار

ادب کا رشتہ سرمایہ داریت سے جوڑنے والے دنیا کے نمایاں درسی ادبی نقاد فریڈرک جیمیسن انتقال کر گئے

اشتہار

حیرت انگیز

کنیکٹیکٹ: ادب کا رشتہ سرمایہ داریت سے جوڑنے والے دنیا کے نمایاں نقادوں میں سے ایک فریڈرک جیمیسن 90 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔

فریڈرک جیمیسن کی بیٹی شارلٹ جیمیسن نے ایک بیان میں اتوار کو ان کی موت کا اعلان کیا، تاہم ان کے انتقال کی وجہ نہیں بتائی گئی، ان کا انتقال امریکی ریاست کنیکٹیکٹ کے قصبے کلنگ ورتھ میں ان کے گھر پر ہوا۔

گزشتہ 40 برسوں سے دنیا کے معروف ادبی نظریہ سازوں میں فریڈرک جیمیسن کا اثر و رسوخ برقرار رہا ہے، وہ اپنی نہایت سخت مارکسی تنقید کے لیے مشہور تھے، نقادوں میں ان کی انفرادیت یہ تھی کہ انھوں نے اپنی تنقید کا میدان جرمن اوپیرا، سائنس فکشن فلموں اور لگژری ہوٹلوں کے ڈیزائن جیسے موضوعات تک پھیلایا۔

- Advertisement -

وہ ایک با اثر درسی نقاد تھے، انھوں نے 30 سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں، ان کی کتابیں گریجویٹ طلبہ (ابتدائی انڈر گریجویٹ بھی) کے لیے پڑھنا ضروری تھا، نہ صرف ادب میں بلکہ فلم اسٹڈیز، آرکٹیکچر اور تاریخ میں بھی۔

ثقافتی نظریہ ساز فریڈرک جیمسن نے اسکالرز کی کئی نسلوں کو متاثر کیا، وہ شمالی کیرولائنا کی ڈیوک یونیورسٹی سے 1985 میں وابستہ ہوئے اور 18 سال تک اس کے ادبی پروگرام کو عالمی سطح کی شہرت عطا کی۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق وہ با اثر تو تھے لیکن بہت زیادہ اکیڈمک ہونے کی وجہ سے وہ عوام کو با شعور بنانے کے سلسلے میں اس طرح کامیابی حاصل نہیں کر سکے جس طرح ان کے ہم عصر چند ادبی نظریہ سازوں نے حاصل کی، جیسے کہ سلیوو ژِژیک اور ہیرالڈ بلوم نے حاصل کی تھی، تاہم ان کا کام اتنا ہی بااثر تھا جتنا کہ دیگر کا۔

بہ طور پروفیسر انھوں نے زیادہ تر جو کورسز پڑھائے وہ جدیدیت، مابعد جدیدیت، نظریہ اور ثقافت، مارکس اور فرائیڈ، اور جدید فرانسیسی ناول اور سنیما پر مشتمل تھے۔ انھوں نے 1954 میں ہیور فورڈ کالج سے بی اے کے ساتھ گریجویشن کی، اور 1959 میں ییل یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا۔

وہ فرانسیسی اور جرمن نظریے کو امریکا میں لانے والے پہلے اسکالرز میں سے ایک ہیں، انھوں نے فلم، فن تعمیر، پینٹنگ اور سائنس فکشن جیسے موضوعات پر بہت سارا لکھا۔ وہ پہلے اسکالرز میں سے ایک تھے جنھوں نے سائنس فکشن لکھنے والے ادیب ’فلپ کے ڈک‘ پر سنجیدگی سے توجہ دی۔

جیمیسن کی 1971 کی کتاب ’’مارکسزم اور ہیئت‘‘ نے ادبی تھیوری میں مارکسی مطالعے کو زندہ کرنے میں بہت مدد کی، اس کتاب میں انھوں نے تاریخی اور سیاسی نظریے کے درمیان تعلق پر بہت زور دیا، اور یوں ادبی تنقید میں سیاسی سروکار کی طرف رجوع کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔

ان کی موت کی خبر کے بعد اتوار کو دنیا بھر کے ادبی دانشوروں نے انھیں خراج تحسین پیش کیا۔ ڈیوک یونیوسٹی کے بہت سے ساتھیوں اور سابق طلبہ نے ان کی خدمات پر انھیں خراج تحسین پیش کیا۔ یونیورسٹی میں ادب کے ایک ممتاز پروفیسر ٹورل موئے نے کہا کہ جیمیسن کی موت نہ صرف ڈیوک بلکہ دانشورانہ دنیا کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے، ان کے کام نے ہزاروں لوگوں کو متاثر کیا ہے۔

ٹائمز کے رپورٹر کلے رائزن نے لکھا کہ فریڈرک جیمیسن نے دو نمایاں کارنامے انجام دیے، ایک یہ کہ 1970 کی دہائی میں انھوں نے مغربی مارکسزم کے (فرانس اور جرمنی میں مقبول) تنقیدی نقطہ نظر کو امریکی حلقوں میں متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا، یہ نقطہ نظر اس تصور پر مبنی تھا کہ ثقافت کا سماج کی اقتصادی بنیاد سے گہرا تعلق ہے (اگرچہ مکمل طور پر اس تک محدود نہیں)۔ دوم یہ کہ صنعت سازی سے عبارت بیسویں صدی کے پہلے نصف میں تشکیل پانے والے تجزیے کو فریڈرک جیمیسن صدی کے دوسرے نصف کے گلوبلائزیشن اور ٹیکنالوجی والے دور میں لے کر آئے، ایک ایسا دور جس میں سرمایہ داری روزمرہ کی ثقافت کی چکرا دینے والی گہرائی میں اتری۔

انھوں نے 1981 میں اپنی کتاب ’’دی پالیٹیکل اَنکنشس: نریٹو ایز آ سوشلی سمبلک ایکٹ‘‘ میں دکھایا کہ ہومر کے ایپک سے لے کر جدید ناول تک بیانیے کی جتنی شکلیں ہیں، وہ سب سرمایہ داریت کے ارتقا کے ساتھ صورت پذیر ہوئی ہیں، اور یہ کہ ان اصناف نے سرمایہ دارانہ ساختوں کو نہ صرف یہ کہ فروزاں کیا، بلکہ ساتھ ہی ساتھ انھیں مبہم بھی کر دیا۔

Comments

اہم ترین

رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں گزشتہ 20 برسوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، ان دنوں اے آر وائی نیوز سے بہ طور سینئر صحافی منسلک ہیں۔

مزید خبریں