کراچی: حنوط شدہ جانوروں کا یہ میوزیم ماضی میں ایک پراسرار عمارت ہوا کرتی تھی، جس میں یہودیوں کی خفیہ تنظیم فری میسن کا مرکز واقع تھا۔
شہر قائد میں کراچی پریس کلب کے قریب واقع یہ پُر اسرار عمارت اب سندھ والڈ لائف کی پرشکوہ عمارت کی صورت لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے، کراچی شہر کے قلب میں واقع یہ قدیم عمارت ماضی میں کبھی فری میسن (میسونک لاج) نامی خفیہ تنظیم کا پاکستان میں ہیڈ آفس ہوا کرتی تھی۔ دین محمد وفائی روڈ پر قائم یہ عمارت اپنی منفرد طرز تعمیر کا عظیم شاہکار ہے۔
شان دار ماضی
کسی بھی ملک یا شہر کا شان دار ماضی اس کی پرشکوہ عمارات سے مزین ہوتا ہے۔ فری میسن نامی تنظیم کی یہ عمارت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ کراچی شہر ماضی میں دنیا کی بہترین عمارات اور فن تعمیر کا مرکز تھا۔
یہ عمارت 1914 میں تعمیر ہوئی تھی، اس کے داخلی راستے پر یونانی طرز کے ستون ایستادہ ہیں، اس کی مخصوص طرز تعمیر سڑک پر سے گزرنے والے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہے۔ واضح رہے کہ کراچی میں پہلے لاج یعنی پوپ لاج کا سنگ بنیاد 1843 میں رکھا گیا تھا اور سندھ کے پہلے گورنر سر چارلس نیپیر کو بھی اس کا اعزازی رکن بنایا گیا تھا۔
خفیہ تنظیم
پاکستان میں بہت ساری تنظیمیں اور لوگ فری میسن تنظیم کو یہودیوں کی پروردہ خفیہ تنظیم سمجھتے تھے، تقسیم کے بعد اس عمارت کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ فری میسن کو یہودی مالی مدد کرتے ہیں، اور اس کا نشان یہودیوں کا اسٹار یعنی آٹھ کونوں والا ستارہ ہے، مگر یہ بات حقیقت پر مبنی نہیں کہ اس تنظیم میں دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی شامل تھے۔
تقسیم سے پہلے فری میسن ہال کراچی میں، جسے پوپ لاج بھی کہا جاتا ہے، سوسائٹی کے سب پروگرام منعقد ہوتے تھے، اس عمارت میں شام کو بڑی ہلچل لگی رہتی تھی، عمارت کے سامنے سفید وکٹوریہ گاڑیوں کی قطاریں ہوتی تھیں۔ اُس وقت اس کے ممبر 500 سو تھے۔ ان میں سے کچھ خاص نام جام میر ایوب عالمانی کراچی میں سیاسی، سماجی، ادبی اور ثقافتی حوالے سے بڑا نام تھا۔
خفیہ نشان
مشہور محقق اختر بلوچ کہتے ہیں کہ تقسیم سے پہلے حقیقت کچھ مختلف تھی اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس تنظیم میں پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں مسلمان بھی شامل تھے۔ یہودیوں کا اسٹار آف ڈیوڈ اور فری میسن کے لوگو کا ایک ہونا اسی بات کے پروپیگنڈے کا حصہ ہے۔ تاہم ان دونوں نشانوں میں بہت فرق ہے، فری میسن ہال کا لوگو اور اسٹار آف ڈیوڈ الگ الگ نشانات ہیں۔
پابندی
پاکستان میں 1973 میں فری میسن کی اس عمارت کو مختلف تنظیموں کے مطالبے پر سیل کر دیا گیا تھا اور اس تنظیم پر 1983 میں مارشل لا ریگولیشن 56 کے تحت پابندی لگا دی گئی تھی۔
اس تنظیم کی ابتدا 1717 میں برطانیہ میں شروع ہوئی تھی، دنیا بھر میں آج بھی اس کے ممبران کی تعداد لاکھوں میں بتائی جاتی ہے، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آج بھی کوئی عورت اس تنظیم کی ممبر نہیں بن سکتی۔
فری میسن کی یہ عمارت اب سندھ وائلڈ لائف کی ملکیت ہے، جہاں حنوط شدہ جنگلی جانورں اور آبی حیات کا میوزیم اور نایاب کتابوں پر مبنی لائبریری قائم ہے۔