رباب کی موسیقی پر اپنے آنچل کو جھٹکا دیتے ہوئے زور زور سے دھمال کرتے ہوئے بلوچی لباس میں وہ لڑکی زور زور سے بولنے لگتی ہے ’اللہ تو ہار اللہ تو ہار‘ اور پھر چاروں اطراف سے کھڑے مرد عورتیں یک آواز اللہ توہار کی گونج میں گم ہوجاتے ہیں۔ (سندھی لفظ اللہ تو ہار کا مطلب ہے اللہ تمہارے سہارے ہے)۔
یہ منظر پہاڑ کی چوٹی پر قائم مزار کا ہے جہاں پر ہر سو ایسے مناظر ملیں گے۔ دور دراز علاقوں سے آنے والی خواتین دھمال کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان خواتین کے ساتھ ان کے رشتے داربھی ہوتے ہیں جو بتاتے ہیں کہ دھمال کرنے والی خاتون کو جن دھمال کرواتا ہے کیونکہ اس کا جسم جن کے قبضے میں ہے۔
گنج بخش عرف گاجی شاہ کے مزار پر 3 دن کے میلے کے دوران اس طرح کے ہزاروں لوگ ہر سال آتے ہیں اور وہ ہی لوگ ہر سال اسی مزار پر اس ہی دن آکر دھمال کرتے ہیں۔ ہر سال آنے کا وعدہ ان سے گاجی شاہ کے گدی نشین لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آئندہ سال دھمال کرنے نہیں آؤگی تو فقیر (جن) تمہاری گردن توڑ دے گا، اور پھر مزار پر ایک بار دھمال کرنے والے کو ہر سال آنا پڑتا ہے۔
گاجی شاہ کے میلے پر سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے سرائیکی علاقے سے بڑی تعداد میں بلوچ قبائل سے تعلق رکھنے والی وہ خواتین پہنچتی ہیں جو عام طور پر گھروں سے نکلنے کا تصور بھی نہیں کر سکتیں۔ گاجی شاہ کے میلے پر ان خواتین کے ساتھ ان کے مرد اور دیگر مرد بھی تین دن تک یہاں سخت سردی میں ٹہرتے ہیں۔ جنوں کے قبضے میں صرف خواتین کی ہی نہیں مردوں کی جان بھی ہوتی ہے اور مرد بھی دھمال کرتے ہیں۔
کراچی سے 300 کلو میٹر کے فاصلے پر ضلع دادو کے پہاڑی خطے میں کیرتھر کے پہاڑی سلسلے کی گود میں واقع ٹنڈو رحیم سے تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر گاجی شاہ کا مزار ہے اور گاجی شاہ کو ان کی وصیت کے مطابق پہاڑی کی چوٹی پر دفن کیا گیا تھا۔
راوی بتاتے ہیں کہ گاجی شاہ نے وصیت کی تھی کہ ان کی لاش کو ان کی اونٹنی پر رکھ کر اونٹنی کو چھوڑدیا جائے، جہاں اونٹنی بیٹھ جائے وہاں تدفین کروائی جائے۔ روایت یہ ہے کہ اونٹنی پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھ گئی جہاں پر اب گاجی شاہ کا مزار ہے۔
سہ روزہ میلہ مقامی افراد کے لیے تفریحی سامان بھی میسر کرتا ہے۔ ارد گرد کے دیہات اور چھوٹے شہروں سے ہزاروں افراد میلہ گھومنے کے لیے آتے ہیں۔ بچے، بزرگ، نوجوان ہر عمر کے لوگ یہاں آتے ہیں، منتیں مانگنے اور دھمال کرنے والوں کے مقابلے میں تفریح کے لیے آنے والے افراد کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔
بارہ فروری سے تین روزہ میلہ جاری ہے، ان تین دنوں کے دوران عارضی بازار لگتے ہیں، ہوٹل کھولے جاتے ہیں، ایک ٹینٹ سٹی بن جاتا ہے اور میلے پر آنے والے لوگوں کی بڑی تعداد اس چشمے کو بھی دیکھنے ضرور جاتی ہے جو پہاڑوں کی وسط سے بڑے طمطراق کے ساتھ برق رفتاری سے پانی پھینکتا ہوا گاجی شاہ کے مزار کے سامنے سے بہتا ہے۔
موسیقی پر گردن ہلا کر زور زور سے دھمال کرنے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ رباب، الغوزہ، اور سرندہ کی موسیقی پر مست ہوجانے کا جواز ان لوگوں کے سامنے بیشک جنوں کی کہانی ہو لیکن نفسیاتی ماہرین اس عمل کو نفسیاتی بیماری تصور کرتے ہیں۔
نفسیاتی ماہرین ہسٹریا اور دیگر بیماریوں کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس طرح کی دیگر بیماریوں کے شکار لوگ موسیقی پر دھمال کرنے کے بعد خود کو پرسکون محسوس کرتے ہیں اور ایسا تصور کرنے لگتے ہیں کہ اب ان کی بیماری ختم ہوگئی یا ان کی نظر میں اب آسیب یا جن بھاگ گئے، لیکن ضروری نہیں کہ اس طرح کے عمل میں شامل تمام لوگ نفسیاتی مریض بھی ہوں البتہ دھمال کرنے والوں کچھی تعداد ایسی ہوتی ہے۔
اب سوال یہ کہ آخر گاجی شاہ کون ہیں؟ اور ہزاروں جن ان کے مزار پر کہاں آتے ہیں؟ گنج بخش یا گاجی شاہ سولہویں صدی کا فوجی کمانڈرتھا جنہوں نے سندھ میں کلہوڑا راج سے قبل مقامی افراد کی مزاحمتی تحاریک کو کمانڈ کیا تھا۔
سولہویں صدی کی یہ تحاریک مغل بادشاہوں کی سلطنت کے خلاف شروع ہوئیں جس میں میاں وال تحریک نے اہم کردار ادا کیا تھا جس کے بعد مغل بادشاہوں نے سندھ کی حکمرانی مقامی کلہوڑا حکمرانو ں کے حوالے کی تھی۔
میاں نصیر محمد کلہوڑو کی قیادت میں پہلی لڑائی لڑی گئی تھی جس میں گاجی شاہ نے خدا آباد سے لے دادو ضلع کے پورے پہاڑی خطے میں میاں وال تحریک کی قیادت کی تھی۔ 1696 عیسوی میں میاں نصیر محمد، کلہوڑا دور کا پہلا حکمران بنا۔ اس کے بعد میاں یار محمد کلہوڑو، میاں غلام شاہ اور میاں نور محمد حکمران بنے۔
تقریباً ایک صدی پر مشتمل کلہوڑا راج کا 1783 عیسوی میں خاتمہ ہوا تھا۔ اس کے بعد نہ صرف کلہوڑا حکمرانوں اور ان کے خلیفوں اور ساتھیوں کے مقبرے بنے، گاجی شاہ کا مقبرہ بھی اسی دور کی علامت ہے لیکن عقیدت مندوں نے گاجی شاہ کو ایک جرنیل اور نڈر کمانڈر سے جنوں کا پیر بنا دیا ہے۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔