پنجاب کے شہر پتوکی میں نمائندہ اے آر وائی نیوز جو اس جوا مافیا سے متعلق گزشتہ کافی عرصے سے رپورٹنگ کررہے ہیں نے اس مافیا اور پولیس کے تعلق سے متعلق بہت سی معلومات ٹیم سرعام کو فراہم کیں۔
انہوں نے ٹیم سر عام کو بتایا کہ اس کام کو چلانے والے دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں پہلے وہ جو اس کام کو عالمی سطح پر کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو مقامی طور پر جوا سٹہ چلاتے ہیں۔
ان لوگوں میں درجہ بندی اس طرح کی جاسکتی ہے کہ بڑے شہروں کا جوا مافیا لاکھوں روپے میں جوا کھلواتا ہے جبکہ تیسرے درجے کا مافیا ہزاروں یا سیکڑوں کی رقوم پر یہ کام کرتا ہے۔
نمائندہ اے آر وائی نیوز مقدر علی کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے آن لائن کام میں جدت آتی گئی ویسے ویسے عالمی سطح پر کام کرنے والے بڑے بڑے بکیز بھی اس کے استعمال سے مزید امیر اور کامیاب ہوتے چلے گئے تاہم پولیس اور ان کے درمیان پکڑ دھکڑ کارروائیاں بھی چلتی رہی ہیں اس کام کو روکنا بہت مشکل ہے۔
جوئے کی نئی شکل ’فینسی‘ کیا ہے؟
انہوں نے بتایا کہ جوئے کی نئی شکل ’فینسی‘ نے بہت تباہی مچائی ہے، پہلے سے بک ہونے والے جوئے کے علاوہ فینسی جوا بھی عروج پر ہے جو کہ بال ٹو بال چلتا ہے اور اس کی نوعیت تبدیل ہوتی رہتی ہے، جوا بک کرنے والے بکیوں نے اپنے کرکٹ میچ بلا تعطل دیکھنے کے لئے ایل سی ڈیز اور ٹی وی سیٹوں کے ساتھ ساتھ لوڈشیڈنگ سے نمٹنے کے لئے جنریٹر اور یو پی ایس کا بھی انتظام کیا ہوا ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کی وارداتیں مقامی پولیس کی ملی بھگت کے بغیر ہو ہی نہیں سکتیں ان کے رابطے میں موجود پولیس اہلکار و افسران کے لئے انہیں رقم اور گفٹ بھی بھجوا دیے جاتے ہیں جن کا کام صرف پولیس کے چھاپے کی صورت میں ان کو بروقت اطلاع فراہم کرنا ہوتاہے، تاکہ اگر چھاپہ پڑے تو اس سے پہلے سب کچھ غائب کیا جا سکے۔