7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد جب سے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کے حملے شروع ہوئے ہیں، محصور شہر کے شمالی حصے میں واقع الشفا اسپتال کا نام خبروں میں نمایاں طور پر سامنے آ رہا ہے۔
بالخصوص گزشتہ 5 دنوں سے غزہ کے حوالے سے سب سے اہم خبر الشفا اسپتال سے متعلق خبر رہی ہے، کیوں کہ غزہ کے لیے وہ لائف لائن کی حیثیت اختیار کر گیا ہے، جہاں نہ صرف زخمیوں کا علاج ہو رہا تھا بلکہ پناہ گزینوں کو بھی بڑی تعداد میں ’چھت‘ میسر آ گئی تھی۔
جب اس اسپتال کے اندر سے مردہ اور معذور بچوں کی تصاویر پوری دنیا میں نشر کی گئیں، تو اس نے لاکھوں لوگوں کو فلسطینیوں کی حمایت میں سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کر دیا۔ فلسطینیوں کو بھی اس سے طاقت ملی، اور ان کے لیے یہ اسپتال طاقت کی علامت بن گیا اور ایک عسکری طور پر ایسی مضبوط قوت (اسرائیل) کے سامنے ڈٹ کر کھڑا رہا جو بہت کم تحمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔
الجزیرہ کے مطابق اسپتال میں سفاکانہ مناظر منظر عام پر آئے، صہیونی فورسز کے اسنائپرز نے ایک طبی عمارت سے دوسری عمارت میں جانے کی کوشش کرنے والے فلسطینی شہریوں کو بے دریغ گولیاں ماریں، اور اس درندگی کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر اسرائیلی مظالم کے خلاف ایک شور اٹھا، وہ شور جس پر صہیونی سرکار نے کان بند کر لیے ہیں۔
الشفا اسپتال کی اہمیت
فلسطینیوں کے لیے اب الشفا اسپتال کی اہمیت طبی مرکز سے کہیں زیادہ ہو گئی ہے، کئی منزلہ اس میڈیکل کمپلیکس کو غزہ کا دھڑکتا دل قرار دیا گیا ہے۔
جب فلسطین پر برطانوی حکومت تھی یہ اسپتال اس وقت سے موجود ہے، یہ دراصل برطانوی فوجی بیرک تھا جس میں فوجی رہائش پذیر تھے، اور 1946 میں یہ ایک اسپتال بن گیا۔ اس نے کئی جنگیں سہیں اور اسرائیلی قبضے کے کئی برس بھی اس نے دیکھے لیکن یہ اسی طرح قائم رہا۔
More than 100 bodies of men, women and children have been buried in a mass grave in Gaza’s Khan Younis. The bodies are reportedly of those who were detained inside the al-Shifa Hospital and Beit Hanoon Hospital in the northern Gaza Strip over the past days ⤵️ pic.twitter.com/YaA2U8FsTN
— Al Jazeera English (@AJEnglish) November 22, 2023
پچھلے ایک مہینے سے اسے ادویات اور ایندھن کی فوری ضرورت تھی لیکن اسرائیل نے اسے ممکن نہیں ہونے دیا، اور پھر اسرائیلی فوجیوں نے اندر گھس کر ادویات کے رہے سہے ذخیرے کو بھی اڑا دیا۔ اسپتال میں اتنی لاشیں پڑی تھیں کہ اسپتال کے عملے کو درجنوں لاشوں کو اجتماعی قبر میں دفن کرنا پڑا، ان کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں تھا۔
غزہ شہادتیں: اپنے ہی صحافیوں کا بی بی سی پر جانب داری کا الزام
اس کے علاوہ الشفا اسپتال غزہ حکومت کے انتظامی اداروں کے لیے بھی ایک کنٹرول سینٹر کی مانند ہے، وزارت صحت کے حکام نے وہاں لاشوں کے درمیان پریس کانفرنسیں کیں، اور حکومت کی وزارت اطلاعات بھی اسی اسپتال سے کام کرتی رہی۔
جب غزہ کے باقی حصوں کے رابطے اسرائیل نے منقطع کر دیے تھے، تب ایسے میں الشفا نے اپنے انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی کو برقرار رکھا، اس لیے یہ صحافیوں کے لیے بھی ایک اہم ترین مقام رہا، جن میں سے کچھ صحافی اب بھی وہاں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہاں سے اسپتال کے ڈائریکٹر اور دیگر ڈاکٹرز اور عملہ جب بھی ممکن ہوا، مسلسل اپ ڈیٹ فراہم کرتے رہے ہیں۔
صہیونی فورسز کا اسپتال پر قبضہ
پندرہ نومبر کو صہیونی فورسز الشفا اسپتال میں چھاپا مارتے ہوئے داخل ہوئے اور ظلم کی ایک نئی داستان رقم کی، اسرائیل کہہ چکا ہے کہ وہ مستقبل میں غزہ کی سیکیورٹی کی ذمہ داری سنبھالنا چاہتا ہے (اگرچہ امریکا چاہتا ہے کہ یہ ذمہ داری نئی فلسطینی اتھارٹی کے پاس ہی ہو)، اس لیے زمینی آپریشن کو وسعت دینے کے لیے شہر کے اس مرکزی اسپتال کو سنبھالنا ضروری تھا۔
جس طرح الشفا اسپتال نے فلسطینیوں اور دنیا بھر کے لوگوں کے لیے مزاحمت کے نئے معنی فراہم کیے ہیں، اسی طرح اسپتال میں جو کچھ ہوتا رہا ہے وہ اسرائیل کے لیے بھی اہم بن گیا ہے، چناں اس نے بے رحمانہ طور پر اسپتال کے پاس بمباری کی اور پھر اس میں داخل ہو کر اس پر قبضہ کر لیا۔
اپنے بیانات میں صہیونی فورسز نے پروپیگنڈا کیا کہ اسپتال کو حماس اپنی عسکری اور انتظامی صلاحیتوں کے گڑھ کے طور استعمال کر رہا ہے، تاہم حماس اور وزارت صحت کی جانب سے مسلسل اس بے بنیاد الزامات کی تردید کی گئی، اور فوجیوں کو اسپتال سے کوئی اسلحہ نہیں ملا۔
فلسطینی وزارت خارجہ نے الشفا کے بارے میں اسرائیل کی ’گمراہ کن من گھڑت سازشوں‘ کے خلاف بھی خبردار کیا، جہاں ہزاروں افراد نے پناہ لے رکھی تھی، اور صہیونی فورسز نے ان بے آسرا لوگوں کو اسپتال سے باہر نکلنے پر مجبور کیا۔
گزشتہ روز غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی فورسز نے الشفا اسپتال کے ڈائریکٹر محمد ابو سلمیہ کو بھی گرفتار کر لیا ہے، دیگر عملہ بھی فورسز کی حراست میں ہے۔ غزہ کی وزارت صحت نے کہا ہے کہ وہ عالمی ادارہ صحت سے اس سلسلے میں وضاحت چاہتا ہے، کیوں کہ طبی ماہرین ڈبلیو ایچ او کے ایک قافلے میں مریضوں کے ساتھ سفر کر رہے تھے، جب انھیں اسرائیلی فورسز نے روکا اور حراست میں لے لیا۔
اسرائیلی فورسز نے چند دن قبل یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ انھوں نے اسپتال میں 55 میٹر طویل ایک سرنگ دریافت کیا ہے، اور ساتھ میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس مقام پر کھڑی ایک گاڑی سے بھاری اسلحہ بھی ملا۔ تاہم الجزیرہ کے مطابق ایک فوجی تجزیہ کار زوران کوسوواک نے غزہ سے تعلق رکھنے والے ایک سول انجینئر کے حوالے سے بتایا کہ یہ ویڈیو دراصل دو مختلف سرنگوں کے کلپس جوڑ کر بنائی گئی ہے۔
واضح رہے کہ صہیونی فورسز کی وحشیانہ بمباری میں اب تک 14,500 سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں ایک بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔