جمعرات, جنوری 16, 2025
اشتہار

کیا غزہ جنگ بندی ڈیل نیتن یاہو کی قبر میں آخری کیل ٹھونک دے گی؟ اسرائیل میں کیا بے چینی پھیلی ہے؟

اشتہار

حیرت انگیز

ایک طرف غزہ جنگ بندی ڈیل ہوتے ہی غزہ میں قبل از وقت جشن کا آغاز ہو گیا ہے، حالاں کہ اس کا اطلاق اتوار 19 جنوری سے ہوگا، اور دسری طرف اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے جنگ بندی کے معاہدے پر کابینہ کی ووٹنگ کو روک دیا ہے۔

ڈیل ہوتے ہی اسرائیل کی انتہائی دائیں بازو کی شدت پسند جماعتوں نے سخت رد عمل ظاہر کیا ہے اور نیتن یاہو کو اتحاد چھوڑنے کی دھمکیاں دی ہیں، لیکن اسرائیل کی وزارت خارجہ کے سابق ڈائریکٹر جنرل ایلون لیل نے الجزیرہ کو بتایا کہ اسرائیل کی کابینہ جنگ بندی معاہدے کے حق میں ووٹ دے دے گی۔

ایلون لیل کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کو کابینہ میں واضح اکثریت حاصل ہے، اس لیے غزہ جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے کو تو پوری ضمانت حاصل ہے، یعنی کابینہ سے اسے توثیق مل جائے گی۔

- Advertisement -

لیکن دیکھا جا رہا ہے کہ جنگ بندی معاہدے کے بارے میں نیتن یاہو ہچکچاہٹ کے شکار ہیں، کیوں کہ انھیں اچھی طرح اندازا ہے کہ یہ ڈیل ان کے سیاسی اتحاد کو ممکنہ طور پر کمزور کر سکتی ہے، اس لیے ان کی جانب سے تشویش بجا ہے۔ تاہم نیتن یاہو کو احساس ہے کہ وہ شدت پسند وزرا بین گویر اور سموٹریچ کے بغیر بھی اپنا اتحاد برقرار رکھ سکتے ہیں، اس لیے امکان ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے اعتدال پسند اراکین پر زیادہ انحصار کریں گے۔

نیتن یاہو کو تشویش یہ ہو سکتی ہے کہ جنگ بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے کو کابینہ کی جانب سے توثیق نہ ملے، کیوں کہ اس مرحلے کا مقصد ہی جنگ کا مستقل خاتمہ کرنا ہے، اس لیے وہ اعتدال پسند اراکین کی طرف زیادہ دیکھیں گے، اور ویسے بھی آئندہ 42 دنوں میں کون جانتا ہے کہ اس خطے کی شکل کیا ہوگی۔

اسرائیلی اخبارات کے مطابق بینجمن نیتن یاہو کی حکومت کے اندر مسائل ابھرنا شروع ہو گئے ہیں، خاص طور پر ’مذہبی صہیونی پارٹی‘ کے درمیان کا اندرونی تنازعہ ابھر کر سامنے آ گیا ہے۔ یہ وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ کی پارٹی ہے، جو یہ کہہ کر اتحاد چھوڑنے کی دھمکی دے رہی ہے کہ اگر غزہ جنگ بندی معاہدے کو کابینہ کا ووٹ مل گیا تو یہ اسرائیل کے لیے ایک بری ڈیل ہوگی۔ صہیونی پارٹی کا مطالبہ ہے کہ معاہدے کے ابتدائی مرحلے کے بعد اسے یہ ضمانت دی جائے کہ اسرائیل واپس پوری قوت سے جنگ کی طرف جائے گا۔

اس پارٹی کی میٹنگیں جاری ہیں، اور اس بات پر اڑی ہوئی ہے کہ وہ معاہدے کو ووٹ نہیں کریں گے، یہاں تک کہ اتحاد ہی چھوڑ دیں، اس جماعت کے ارکان کا کہنا ہے کہ ان کے حکومت سے دست بردار ہونے کا قوی امکان ہے۔

ایک طرف بینجمن نیتن یاہو کو غزہ میں قیدیوں کو وطن واپس لانے کے لیے بہت زیادہ دباؤ کا سامنا ہے، اور دوسری طرف ان کے انتہائی دائیں بازو کے اتحادیوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر وہ بہت زیادہ رعایتیں دیں گے تو وہ ان کی حکومت کو گرا دیں گے۔

انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ جنگ بندی معاہدے کے سخت مخالف ہیں، اور اس نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ اس معاہدے کا اسرائیلی معاشرے پر برا اثر پڑے گا، انھوں نے لکھا کہ ہم سب کو یرغمالیوں کی واپسی کی خواہش ہے لیکن کسی معاہدے کی بھارتی قیمت اسرائیل کے مستقبل کو ادا کرنا پڑے گا، ہم اسی مخمصے کا شکار ہیں۔ انھوں نے X پر لکھا کہ ہم معاہدے کی بحث کو اس لیے مسترد کر رہے ہیں کیوں کہ یہ اسرائیلی معاشرے میں نفرت اور تقسیم کی ’خانہ جنگی‘ میں تبدیل کر رہی ہے۔

غزہ جنگ بندی معاہدہ، دنیا خیر مقدم کرنے لگی

اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو جس مخمصے کا شکار ہیں، اس کی وجہ سے انھوں نے حماس پر جنگ بندی معاہدے سے پیچھے ہٹنے کا الزام لگا دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حماس معاہدے کے کچھ نکات کا انکار کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے انھوں نے کابینہ میں معاہدے کی منظوری کا عمل روک دیا ہے۔

نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ حماس نے ثالثوں اور اسرائیل کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے کچھ حصوں سے انکار کیا ہے تاکہ آخری لمحات کی مراعات حاصل کی جا سکیں، اس لیے اسرائیلی کابینہ اس وقت تک اجلاس نہیں کرے گی جب تک کہ ثالث اسرائیل کو مطلع نہ کریں کہ حماس نے معاہدے کے تمام عناصر کو قبول کر لیا ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیلی کابینہ آج اس معاہدے کی توثیق کرنے والی تھی۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ڈیل کی اگر کسی خلاف ورزی کی ہے تو وہ اسرائیل ہے، جس نے جنگ بندی معاہدے کے بعد سے کم از کم 73 فلسطینیوں کو بمباری میں شہید کر دیا ہے، غزہ کے شہری دفاع کے مطابق تازہ ترین جنگ بندی معاہدے کے اعلان کے بعد سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں 20 بچوں اور 25 خواتین سمیت کم از کم 73 فلسطینی شہید اور 230 سے ​​زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ ریسکیو سروس نے بتایا کہ ان میں سے تقریباً 61 ہلاکتیں غزہ شہر میں ہوئی ہیں۔

Comments

اہم ترین

رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں گزشتہ 20 برسوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، ان دنوں اے آر وائی نیوز سے بہ طور سینئر صحافی منسلک ہیں۔

مزید خبریں