اسرائیل کی وحشیانہ جارحیت کے باعث غزہ میں چہار سو موت کا راج اور بھوک رقصاں ہے ایسے میں ایک مظلوم فلسطینی ماں عالمی بے حسی پر پھٹ پڑی۔
اسرائیل کی گزشتہ سال 7 اکتوبر سے غزہ پر جاری جارحیت میں اب تک 40 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور اس سے کئی گنا زخمی اور لاپتہ ہیں۔ مرنے والوں میں بچوں اور خواتین کی تعداد زیادہ ہے جب کہ پورا غزہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔
جو صہیونی ریاست کی بربریت سے بچ گئے ہیں وہ کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور اسرائیلی رکاوٹوں کے باعث خوراک اور طبی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے بدترین قحط جیسی صورتحال سے دوچار ہیں۔
ماں وہ ہستی ہے جو خود تو بھوکا رہ سکتی ہے لیکن اپنے بچوں کو بھوک سے بلکتا نہیں دیکھ سکتی اور یہی حال سات بچوں کی ماں اتماد القنوع کا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق اتماد جس کے باعث اپنے بچوں کو کھلانے کے لیے اب خوراک نہیں بچی ہے وہ اقوام عالم کی بے حسی پر تو نالاں ہے ساتھ اسے یہ فکر بھی دامن گیر ہے کہ وہ اپنے بچوں کے پیٹ کی دوزخ کیسے بھرے گی۔
یہی مجبوری ہے کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئی ہے کہ ’’اب ہم پر ایٹم بم گرا دیں، تاکہ یہ سب ختم ہو۔ جو زندگی ہم جی رہے ہیں، ہم یہ زندگی نہیں چاہتے، یہاں ہم روز مرتے ہیں، کچھ تو ہم پر رحم کریں۔‘‘
اتماد جن کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں اور ان کے بچوں کی عمریں 8 سے 18 برس کے درمیان ہیں۔ خوراک کے حصول کے لیے جب وہ خیراتی اداروں کے پاس خالی برتن لے کر جاتے ہیں تو لوگ زیادہ اور خوراک کم ہونے کے باعث ان کے برتن اتنے بھی نہیں بھر پاتے کہ وہ ایک وقت پیٹ بھر کر کھانا کھا لیں۔
بھوک کے مارے غزہ کے باشندوں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس جانے کے لیے کوئی محفوظ جگہ نہیں۔
غزہ کے بعض رہائشیوں کا کہنا ہے کہ ان کی حالت 1948 کے ’نقبہ‘ سے بھی بدتر ہے جب لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ مذکورہ صورتحال پر عالمی غذائی تحفظ کے ماہرین شمالی غزہ کے کچھ حصوں میں قحط پڑنے کا خدشہ ظاہر کر چکے ہیں۔