امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے بیان کے بعد اس ستم رسیدہ شہر کو ترکیہ کا خودمختار حصہ قرار دینے کا مطالبہ سامنے آگیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق ترکیہ کے سابق وزیراعظم اور وزیر خارجہ احمد داؤد اوگلو نے غزہ سے متعلق ایک متنازع بیان دیا ہے جس نے نئی بحث کو جنم دیا ہے۔
احمد داؤد اوگلو نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ نیو پاتھ پارٹی کے پارلیمانی بلاک کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ غزہ کی پٹی کو جمہوریہ ترکیہ کا ایک خود مختار حصہ قرار دیا جائے۔
احمد داؤد جو ترکیہ کی حزب اختلاف جماعت فیوچر پارٹی کے سربراہ بھی ہیں نے اپنے بیان کی توجیح پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ برطانوی مینڈیٹ سے پہلے غزہ پر حکمرانی کرنے والی سلطنت عثمانیہ آخری آئینی ریاست تھی۔ یہ وقت ہے کہ غزہ کو ایک خودمختار علاقے کے طور پر ترکیہ سے دوبارہ جوڑ دیا جائے۔
داؤد اوگلو نے کہا کہ سلطنت عثمانیہ برطانوی مینڈیٹ سے پہلے غزہ پر حکمرانی کرنے والی آخری آئینی ریاست تھی۔ ترکیہ جمہوریہ سلطنت عثمانیہ کے آئینی توسیع کی نمائندگی کرتا ہے۔ غزہ کے لوگ "کامریڈ اور فطری شہری” ہیں جو اب بھی اپنے ضمیر اور تاریخ میں عثمانی شناخت کو برقرار رکھتے ہیں۔
ترکیہ کے سابق وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ غزہ کے عوام کو ایک خودمختار علاقے کے طور پر ترک جمہوریہ سے منسلک ہونے کے لیے ایک عام ریفرنڈم کرانا چاہیے اور جب تک کہ فلسطین کی ریاست قائم نہیں ہو جاتی انہیں فیصلے کا اختیار دینا چاہیے۔
داؤد اوگلو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ کو خریدنے یا اس کی ملکیت کے بارے میں بیانات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ 309 مربع کلومیٹر کے کل رقبے کے ساتھ یہ پٹی نہیں چاہتے بلکہ قبرص اور مصر کے درمیان "سمندر کے نظارے” والے علاقے کے حصول میں دلچسپی رکھتے ہیں، کیاں کہ یہاں قدرتی گیس کے ذخائر موجود ہیں۔
ترکیہ کے سیاسی رہنما اور سابق وزیراعظم کے اس بیان نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ایسے وقت میں جب دنیا ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے بیان کی مذمت کر رہی ہے، ان کا یہ بیان نیا پنڈوراباکس کھول سکتا ہے۔