اقوام متحدہ کے سربراہ نے غزہ کی تباہی پر امریکا سے اظہار مایوسی کر دیا ہے، انتونیو گوتریس نے کہا کہ امریکا کو اسرائیل پر غزہ بمباری ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے، لیکن انھوں نے اعتراف کیا کہ ’’میں امریکی سیاسی زندگی کو اتنا جانتا ہوں کہ ایسا نہیں ہوگا۔‘‘
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے الجزیرہ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’’ہم نے واشنگٹن پر زور دیا ہے کہ وہ جنگ کے خاتمے کے لیے اسرائیل کے خلاف ایک مضبوط مؤقف اختیار کرے، اور یہ کہ امریکا کو اسرائیل کو روکنے کے لیے اس پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے۔‘‘
انھوں نے کہا ’’میرے پاس جنگ کو روکنے کی طاقت نہیں ہے، ہمارے پاس ایک آواز ہے، اور یہ آواز شروع سے ہی بلند اور واضح ہے کہ یہ جنگ بند ہونی چاہیے، فلسطینی عوام کے مصائب کا خاتمہ ہونا چاہیے اور فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔‘‘
گوتریس نے امریکی ویٹو کی وجہ سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی غزہ جیسے بڑے تنازعات کو حل کرنے میں ناکامی پر بھی تنقید کی، انھوں نے عالمی طاقتوں کو اس بات کا بھی ذمہ دار ٹھہرایا کہ انھوں نے قوموں اور تحریکوں کو بغیر سزا کے کام جاری رکھنے کے قابل بنایا۔ گوتریس نے بین الاقوامی عدالت انصاف کے اس فیصلے کا بھی حوالہ دیا کہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر اسرائیلی قبضہ غیر قانونی ہے اور ان علاقوں کو آزاد فلسطینی ریاست بننا چاہیے۔
فلسطین کے دو ریاستی حل کے لیے یورپی اور مسلم ممالک کا اجتماع
گوتریس نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ صورت حال ایسی بنا دی گئی ہے کہ ممالک یا دنیا میں کہیں بھی کوئی تحریک یہ محسوس کرتی ہے کہ وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں، کیوں کہ انھیں کوئی سزا نہیں ہوگی۔
انھوں نے کہا فلسطین پر اسرائیل کا 57 سالہ قبضہ نسل پرستی کی ایک غیر قانونی شکل ہے جسے فوری طور پر ختم کیا جانا چاہیے۔ واضح رہے کہ اس سلسلے میں یو این ادارے ’’بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے)‘‘ میں اسرائیل کے خلاف غزہ میں نسل کشی کا مقدمہ چل رہا ہے۔