کیف : روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ میں دونوں ملکوں کی جانب سے ایک دوسرے کو بھاری نقصانات پہچانے کے دعوے کیے جارہے ہیں۔
آج حملے کا چوتھا روز ہے ایک جانب یوکرینی حکام نے مبینہ طور دعویٰ کیا ہے کہ ان کے ایک پائلٹ نے ایک ہی دن میں روس کے چھ لڑاکا طیارے مار گرائے ہیں۔
دوا روز قبل یوکرین کے ایک سفارت کار نے اپنے ٹویٹ میں یوکرینی پائلٹ کی تصویر شیئر کی اور دعویٰ کیا کہ اس پائلٹ نے اپنے مگ29 طیارے کے ذریعے پہلے ہی دن فضائی لڑائی کے دوران روس کے خلاف چھ فتوحات حاصل کی ہیں۔
اس پائلٹ کو یوکرینی حکام کی جانب سے ” گھوسٹ آف کیف” کا نام دیا جا رہا ہے۔ اس پائلٹ یا اس کہانی کی حقیقت کیا ہے اب اس پر سے پردہ اٹھ چکا ہے۔
غیرملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یہ دراصل 2013 کے پی سی گیم، ڈیجیٹل کامبیٹ سمیلیٹر ورلڈ کی فوٹیج تھی۔
❗️One #Ukrainian pilot in 30 hours shot down six #Russian airplanes, including the Su-35, according to the Center for Counteracting Disinformation.
A Ukrainian pilot of a MiG-29 shot down: 2хSU-35, 1хSU-27,1хMiG-29, 2хSU-25. In the network he was called "The Ghost of Kyiv”.
— NEXTA (@nexta_tv) February 25, 2022
جیسے ہی یوکرین پر روس کا حملہ دوسرے دن میں داخل ہوا، افواہیں گردش کرنے لگیں کہ یوکرین کے لڑاکا پائلٹ متعدد روسی اہداف کو تباہ کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
یوکرین کی مسلح افواج کے جنرل اسٹاف نے دعویٰ کیا کہ جمعرات کی صبح پانچ روسی طیارے اور ایک ہیلی کاپٹر کو مار گرایا گیا، تاہم روس نے نقصانات کی تردید کی ہے۔
اس وقت تک یوکرین کے دارالحکومت کیف کے ارد گرد ایک فائٹر جیٹ کے چکر لگانے کے واضح کلپس پہلے ہی سوشل میڈیا پر پھیل چکے تھے۔
One Ukrainian MiG-29 jet fighter pilot scored six victories in a single day in air battles with the Russians. He has been nicknamed as the “Ghost of Kyiv”. Another example of the willingness of the Ukrainian people to resist. The civilized world must help protect our freedom! https://t.co/PL844KQrs9
— Mykola Tochytskyi (@tochytskyi) February 25, 2022
کچھ لوگ مار گرائے جانے والے روسی فضائیہ کے ثبوت تلاش کرنے گئے اور کیونکہ انٹرنیٹ ہمیشہ آپ کو وہی کچھ دے گا جس کی آپ تلاش کر رہے ہیں اس تناظر کے برعکس کہ آیا یہ حقیقی ہے یا نہیں۔
اس طرح “گوسٹ آف کیف” کی بظاہر فوٹیج کو وائرل ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ 25 فروری تک ذیل میں دی گئی ویڈیو وائرل ہوگئی۔ بعد ازاں اسنوپس، روئٹرز اور دیگر خبر رساں اداروں نے اس بات کی تصدیق کی کہ فوٹیج دراصل یوٹیوب ویڈیو کی تھی۔