تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

غلام فرید صابری : جن کا مسحور کن کلام لوگوں‌ پر آج بھی وجد طاری کرتا ہے

کراچی: قوالی کو نئی جہت دینے والے معروف قوال غلام فرید صابری کو ہم سے بچھڑے چھبیس برس بیت گئے۔

پاکستان میں قوالی کے فن کوبام عروج تک پہنچانے والے استاد غلام فرید صابری کو ہم سے بچھڑے 26 برس بيت چکے ہيں مگر ان کا مسحور کن کلام آج بھی دل ميں اتر جاتا ہے۔

قوالی کی دنیا کے بے تاج بادشاہ اورعہد ساز شخصیت غلام فرید صابری کی آج 26 ویں برسی منائی جارہی ہے، ان کا گایا ہوا کلام آج بھی سننے والوں پر وجد طاری کردیتا ہے۔

غلام فرید صابری 1930 میں بھارتی صوبے مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے،انھیں بچپن سے ہی قوالی  کا شوق تھا، انہوں نے قوالی کی باقاعدہ تربیت اپنے والد عنایت صابری سے حاصل کی۔ سن 70 اور 80 کی دہائی ان کے عروج کا سنہری دور تھا، انھوں نے “بھر دو جھولی میری یا محمد” جیسی قوالی گا کر دنیا بھر میں اپنے فن کا لوہا منویا۔

قوالی کے فن ميں يکتا حاجی غلام فريد صابری نے 1946ميں  مبارک شاہ کے عرس پر ہزاروں لوگوں کے سامنے اپنی آواز میں قوالی پیش کی، جہاں ان کے انداز کوبے پناہ سراہا گيا۔  قوالی کے فن میں استاد کا درجہ رکھنے والے غلام فريد صابری نعتیہ قوالی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، جب آپ محفل سماع سجاتے تو سننے والوں پر سحر طاری ہوجاتا۔

بعد ازاں غلام فرید صابری اور ان کے بھائی مقبول صابری جوڑی کی صورت میں قوالیاں پیش کرنے لگے، دس برس تک اُن کا کوئی ہم پلہ نہ تھا۔

دنيا بھر ميں ان کے مداح محفل سماع کے منتظر رہتے، ان کی قوالياں پاکستانی اور بھارتی فلموں کا بھی حصہ بنيں۔غلام فرید صابری 5 اپریل 1994ء کو دل کا دورے ميں خالق حقيقی سے جاملے لیکن ان کا فن شائقین موسیقی کے دلوں میں آج بھی زندہ ہے۔

غلام فرید صابری کی قوالیوں میں تاجدارِحرم، بھردو جھولی،سرِلامکاں سے طلب ہوئی، ملتا ہے کیا نماز میں مشہورِ زمانہ کلام رہے۔

Comments

- Advertisement -