صوفیانہ کلام اور قوالیاں برصغیر میں گائیکی کی مقبول ترین صنف ہے اور یہی وہ خطّہ ہے جہاں یہ روایت جنم لینے کے بعد فن کی شکل میں پروان چڑھی۔ مغلیہ دور سے لے کر آج تک بالخصوص خانقاہوں اور عرس کے مواقع پر قوالی کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے اور محفل سماع میں لوگ بہت ذوق و شوق سے شرکت کرتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت میں معروف قوالوں نے حمدیہ و نعتیہ کلام کے ساتھ منقبت اور مناجات کو قوالی کی طرز پر گایا اور اسے دنیا بھر میں فروغ دیا۔
غلام فرید صابری پاکستان کے چند بڑے اور عالمی شہرت یافتہ قوالوں میں سے ایک تھے جن کا گایا ہوا کلام آج بھی بڑے شوق سے سنا جاتا ہے۔ غلام فرید صابری کی قوالیوں کو نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی بے حد پذیرائی ملی۔ انہوں نے امریکہ، برطانیہ، بھارت اور کئی دیگر ممالک میں پرفارمنس دی اور خوب داد پائی۔ غلام فرید صابری نے فلموں کے لیے بھی قوالیاں ریکارڈ کروائیں جن میں ”عشق حبیب، چاند سورج، الزام، بن بادل برسات، سچائی‘‘ شامل ہیں۔ ان کی مقبول فلمی قوالیوں میں ”محبت کرنے والو‘‘ اور” آفتاب رسالت‘‘ بہت مقبول ہوئیں۔ اردو زبان کے علاوہ صابری مرحوم نے پنجابی، سرائیکی اور سندھی زبان میں بھی قوالیاں گائیں۔ انھیں پاکستان ہی نہیں بھارت اور دنیا کے متعدد ممالک میں فن و ثقافت سے متعلق تنظیموں اور اداروں نے کئی اعزازات سے نوازا تھا۔
غلام فرید صابری نے قوالی کو ایک نئی جہت دی اور ان کا اندازِ گائیکی کئی نئے قوالوں نے اپنایا۔ غلام فرید صابری 5 اپریل 1994ء کو وفات پا گئے تھے۔
لفظ ’’قوالی‘‘ عربی کے لفظ ’’قول‘‘ سے مشتق ہے۔ قول کا مطلب ہوتا ہے ’’بات‘‘ یا ’’بیان کرنا۔‘‘ قوالی کا لفظ برصغیر میں گانے کی ایک خاص صنف کے لیے برتا جاتا ہے جس میں موسیقی کے مخصوص آلات بھی استعمال ہوتے ہیں۔ ہندوستان کی بات کی جائے تو یہاں صوفیائے کرام نے حمد و نعت اور بزرگانِ دین کی مدح سرائی پر مبنی اشعار کو اس انداز سے پسند کیا اور یوں خانقاہوں سے یہ فن عوام تک پہنچا اور اسے مقبولیت حاصل ہوئی۔
غلام فرید صابری اپنے چھوٹے بھائی مقبول احمد صابری کے ساتھ مل کر پرفارمنس دیتے تھے اور یہ جوڑی صابری برادران مشہور ہوئی۔ تاہم غلام فرید صابری کو ان کے منفرد انداز نے نمایاں کیا اور تنہا پرفارمنس کے دوران بھی وہ اپنے سامعین کو وجد و مستی کے عالم جھومنے پر مجبور کردیتے تھے۔ غلام فرید صابری 1924ء میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق متحدہ ہندوستان کے مشرقی پنجاب سے تھا۔ یہ خاندان تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آ گیا اور یہیں کراچی میں غلام فرید صابری کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ وہ پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔
‘تاجدارِ حرم’ اور اس جیسی دیگر کئی مقبول قوالیوں سے لوگوں پر وجد طاری کر دینے والے غلام فرید صابری کا پہلا البم 1958 میں ریلیز ہوا تھا، جس کی قوالی ‘میرا کوئی نہیں تیرے سوا’ نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے اور آج بھی یہ قوالی سننے والا بے اختیار جھومنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ غلام فرید صابری اور مقبول صابری کی جوڑی 70 اور 80 کی دہائی میں اپنی شہرت اور مقبولیت کے عروج پر تھی۔ اسی زمانے میں انھوں نے ‘بھر دو جھولی میری یا محمدﷺ، لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی’ جیسا خوب صورت کلام قوالی کی شکل میں پیش کی اور دنیا بھر میں شہرت پائی۔