اگرچہ غلام جیلانی برق کو ان کی ایک تصنیف کی وجہ سے پاکستان میں مطعون بھی کیا گیا اور ان کی شخصیت اپنے بعض افکار اور خیالات کے سبب متنازع بھی رہی، مگر ان کی ذہانت اور علمی و ادبی حیثیت سے کسی کو انکار بھی نہیں بلکہ آج بھی ان کو ایک مذہبی اسکالر کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
غلام جیلانی برق ایک ماہرِ تعلیم، مصنّف، مترجم اور شاعر تھے جن کا انتقال 1985ء میں آج ہی کے روز ہوا۔ برق کو ان کی علمی استعداد، قابلیت اور تحقیقی کام کی وجہ سے جہاں بہت سراہا جاتا ہے، وہیں مذہبی موضوع پر اپنی ایک تصنیف کے بعد انھیں سخت تنقید اور تنازع کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا لیکن کہا جاتا ہے کہ انھوں نے بعد میں اپنے مؤقف پر نظر ثانی کی اور رجوع کرلیا تھا۔ اس تنازع کے باوجود غلام جیلانی برق کو ہر مکتبِ فکر میں خاص اہمیت ضرور دی جاتی رہی ہے اور انھیں ایک ذی فہم اور دانش ور تسلیم کیا جاتا ہے۔
26 اکتوبر 1901ء کو پنڈی گھیپ، ضلع کیمبل پور میں پیدا ہونے والے غلام جیلانی برق نے عربی، فارسی اور اردو میں اسنادِ فضیلت حاصل کیں۔ بعد میں عربی اور فارسی میں ایم اے کیا۔ 1940ء میں غلام جیلانی برق نے امام ابنِ تیمیہ کی زندگی اور کارناموں پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ بعدازاں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے اور ملازمت کے ساتھ مختلف موضوعات پر لگ بھگ 40 کتابیں تحریر کیں۔ ان کی قابلِ ذکر تصنیف میں دو اسلام، فلسفیانِ اسلام، مؤرخینِ اسلام، حکمائے عالم، فرماں روایانِ اسلام، دانشِ رومی و سعدی، ہم اور ہمارے اسلاف شامل ہیں۔
ڈاکٹر غلام جیلانی برق کا انتقال اٹک میں ہوا اور قبرستان عید گاہ میں سپردِ خاک کیے گئے۔