سندھ اور بلوچستان کے سمندری علاقوں میں گِل نامی جال کے استعمال سے ہر سال 28 ہزار کچھوے، ڈولفن اور چھوٹی مچھلیاں پھنس کر مر جاتی ہیں۔ سندھ اور بلوچستان حکومت کے دعوؤں کے باوجود ان جالوں کا استعمال کھلے عام جاری ہے۔
گج نامی جال پاکستان کی آبی حیات اور ماحولیاتی نظام کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں، ابراہیم حیدری سے لے کر انڈیا کے ساحل تک 70 ہزار جال لگائے گئے ہیں، اس باریک جال میں بڑی مچھلیوں کے ساتھ چھوٹی مچھلیاں اور دیگر آبی حیات کے بچے بھی پھنس جاتے ہیں۔
کراچی فشریز اینڈ ماہی گیر ایسوسی ایشن کے صدر مجید موٹانی کا کہنا ہے کہ گل گجو نامی خطرناک جال ابراہیم حیدری مینگروز کے جنگل سے لے کر انڈیا کے ساحلی علاقوں تک لگا ہوا ہے، جو آبی حیات کے وجود کو تباہ کر رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سمندری وسائل کے استحصال میں خود مچھیرے بھی پوری طرح شریک ہیں۔
پاکستان میں پائی جانے والی اسنیپر فیملی کی مچھلیوں کا تعارف اور ان کی شناخت میں پائی جانے والی غلط فہمیاں
ماہی گیری کی صنعت پاکستان میں 8.1 ملین لوگوں کو روزگار فراہم کرتی ہے، ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ اگر مچھلیوں کے شکار کے لیے اِن ممنوعہ جالوں کا استعمال جاری رہا، تو وہ دن دور نہیں جب یہ سمندری وسائل خواب و خیال بن جائیں گے۔