بدھ, دسمبر 4, 2024
اشتہار

گلیڈی ایٹر 2: ایک اچھی فلم کا بُرا سیکوئل

اشتہار

حیرت انگیز

ہالی وڈ کی کچھ فلمیں جداگانہ تاریخ رکھتی ہیں۔ یہ ایسی فلمیں ہیں‌ جن کو کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔ انہی میں‌ سے ایک گلیڈی ایٹر ہے، جو انیسویں صدی کے اختتام پر ریلیز کی گئی تھی، یعنی سنہ 2000 میں۔ اور اب 24 سال بعد اس فلم کا سیکوئل گلیڈی ایٹر 2 کے نام سے بنایا گیا ہے۔ ان دونوں فلموں میں کیا فرق ہے، اور کیا نئی فلم بھی تاریخ رقم کرسکے گی؟ یہ جاننے کے لیے‌ اس فلم پر یہ تفصیلی تجزیہ اور تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

کہانی/ اسکرین پلے

اس کہانی کے تناظر میں، پہلی فلم میں مرکزی کردار میکسی مس میریڈیئس کا ہے، جو ایک رومی جنرل ہے۔ وہ روم کے شہنشاہ مارکس اوریلیس کی فوج کا نڈر اور جری سپہ سالار ہے۔ ستم ظریفی یہ ہوتی ہے کہ اس بہترین شہنشاہ کا نالائق بیٹا اپنے والد کو قتل کر کے تخت پر قابض ہوجاتا ہے اور ہر اس فرد کی جان کے درپے ہوتا ہے، جو شہنشاہ کا خاص آدمی اور وفادار رہا ہو۔ ان حالات میں یہ سپہ سالار بھی وطن بدر ہوتا ہے اور پھر اس کی واپسی ہوتی ہے ایک گلیڈی ایٹر کی شکل میں۔ وہ تخت پر قابض ہوجانے شہنشاہ کے نالائق بیٹے سے قوم کو نجات دلانے اور شہنشاہ کے قتل کا بدلہ لینے کے ارادے سے لوٹتا ہے۔ اس کشمکش اور جنگ میں آخر کار وہ تمام رکاوٹوں سے گزر کر، ہر ظلم و ستم کو جھیلنے کے بعد فتح یاب ہوتا ہے اور عوام اس کا ساتھ دیتے ہیں۔

- Advertisement -

اس فلم کا سیکوئل مذکورہ بالا کہانی کے پس منظر میں ہی ترتیب دیا گیا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ اب اس سپہ سالار کی جگہ اس کے بیٹے کو دکھایا گیا ہے، لیکن اسے فلم میں ایک عام دیہاتی کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جس کا طرز زندگی سادہ ہے، کیوں کہ بچپن میں اس کی ماں اسے اپنے وطن سے دور کر دیتی ہے تاکہ وہ زندہ رہ سکے۔ یوں اس کی ساری زندگی پردیس میں کٹتی ہے۔ اب وہ ایک جنگ میں شریک ہو کر، اپنی بیوی کو کھونے کے بعد، قیدی اور غلام کی حیثیت سے واپس روم لایا جاتا ہے، جہاں وہ گلیڈی ایٹر کے طور پر کسی طرح حالات کو اپنے حق میں استعمال کر کے اپنی حقیقی ماں تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ روم کے دربار میں محلاتی سازشوں، جان لیوا خونی معرکے سَر کرنے کے بعد وہ آخرکار اپنے دور کے ظالم اور سفاک شہنشاہ برادران اور اس کے سہولت کاروں کو مار ڈالتا ہے۔

اس کہانی کا تجزیہ کریں تو بلاشبہ پہلی فلم کی کہانی انتہائی شاندار ہے۔ اس کہانی کا مرکزی خیال ڈیوڈ فرانزونی کا تھا، جب کہ تین مختلف اسکرپٹ نویسوں نے اس کو مل کر لکھا تھا، یہی وجہ ہے کہانی میں کئی جہتیں تھیں اور ایک ہی کہانی میں کئی مرکزی کردار باہم اسکرین پر دکھائی دیتے رہے اور فلم بین ان کے سحر سے نکل نہ پائے۔ جب کہ اس دوسری فلم میں مرکزی کہانی کو پچھلی کہانی سے ہی اخذ کیا گیا۔ یعنی پلاٹ پرانا تھا، بس کچھ نئے کرداروں کے ساتھ اس کو پیش کیا گیا، لیکن کہانی طوالت کی وجہ سے ناقص ثابت ہوئی۔ اس میں مرکزی کردار کو انتہائی کمزور انداز میں لکھا گیا اور یہ اس کا ایک اور نقص ہے۔ گلیڈی ایٹر 2 کے اس کردار کو دیکھ کر کہیں محسوس نہیں ہوتا کہ وہ کسی سپہ سالار کا بیٹا ہے اور سب سے بڑھ کر وہ کوئی ایسا جنگجو ہے، جو کسی شہنشاہ کا تختہ الٹ سکے اور ریاست کا نقشہ بدل دے۔ فلم میں اسے بہت بے ڈھنگے انداز میں، ایک زبردستی کا انقلابی دکھایا گیا ہے، جس کے پیچھے عوام اور فوج بغیر کسی کشش کے آنے لگتے ہیں۔ پہلی فلم کی کہانی جس قدر دل کو موہ لینے والی تھی، دوسری فلم کی کہانی اتنی ہی معمولی اور بے لطف ہے۔

ہدایت کاری

لیونگ لیجنڈ برطانوی فلم ساز ریڈلی اسکاٹ جنہوں نے سینما کی دنیا میں بہت سی یادگار اور ناقابل فراموش فلمیں تخلیق کی ہیں، انہی کی فلموں میں سے ایک گلیڈی ایٹر بھی ہے۔ نجانے کیوں چند دوسرے بڑے فلم سازوں کی طرح انہیں بھی اس خبط نے گھیر لیا کہ وہ اپنی شہرۂ آفاق فلم کا سیکوئل بنائیں۔ سب سے پہلے تو انہیں اسکرپٹ کی تیاری میں بہت دقت ہوئی، کئی کہانیاں لکھ کر ضائع کر دی گئیں، جو کہانی فائنل ہوئی اس کا حال اوپر میں بیان کر چکا ہوں۔ بطور ڈائریکٹر یہ ان کی ناکامی ہے، کیونکہ اس برے اسکرپٹ پر وہ ایک اچھی فلم تخلیق نہیں کر سکتے تھے اور ایسا ہی ہوا۔ البتہ اگر کسی نے ان کی پہلی فلم گلیڈی ایٹر نہیں دیکھی تو انہیں کسی حد تک یہ دوسری فلم اچھی لگے گی۔ اس بات کو صرف اسکرپٹ نویسی تک محدود نہ رکھیں بلکہ فلم کے دیگر شعبوں میں بھی یہ تنزلی محسوس ہوئی، جن میں سینماٹو گرافی، موسیقی، کاسٹیوم اور فلم کے دیگر پہلو شامل ہیں۔

ریڈلی اسکاٹ واقعی ایک حیران کر دینے والے فلم ساز ہیں اور کسی حد تک اس فلم میں بھی انہوں نے ایسا کیا، اور اسی لیے فلم کو بہرحال مقبولیت مل رہی ہے، مگر ایک بڑی تعداد ان پر تنقید کررہی ہے اور مجھ سمیت یہ سارے وہ لوگ ہیں، جنہوں نے 24 سال پہلے ریلیز ہونے والی ان کی پہلی شاندار فلم گلیڈی ایٹر دیکھی ہوئی ہے۔ یہاں‌ میں کہوں گا کہ گلیڈی ایٹر 2 ایک اچھی فلم کا برا سیکوئل ہے، بالخصوص کمزور کہانی اور غلط کاسٹ اس کے ناقص ہونے کی بڑی وجوہات ہیں۔ اور اس کے ذمے دار بھی ریڈلی اسکاٹ ہیں۔ شاید اب وہ بوڑھے ہورہے ہیں۔ اسٹیون اسپیل برگ، جو امریکی فلم ساز اور سینما کی دنیا کے ایک سمجھ دار فلم میکر مشہور ہیں، اکثر ریڈلی کو مشورہ دیتے رہتے ہیں جن پر ضرور عمل کرنا چاہیے۔ ورنہ ریڈلی اسکاٹ کا تخلیقی بڑھاپا ان کی زندگی بھر کی کمائی ضائع کر سکتا ہے۔

اداکاری

گلیڈی ایٹر 2 کی سب سے بڑی خرابی اس کی مس کاسٹنگ ہے۔ خاص طور پر مرکزی کردار نبھانے والے اداکار پاؤل میسکل ہیں، جن کا اس میں کوئی قصور نہیں، سوائے اس کے کہ انہیں یہ کردار قبول نہیں کرنا چاہیے تھا۔ وہ یہ اندازہ نہ کرسکے کہ اس فلم کے تناظر میں نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والا اداکار رسل کرو جو اس کردار سے اپنی زندگی بنا گیا، ایسے شہرۂ آفاق کردار کو یونہی قبول کرلینا سراسر بیوقوفی تھی، جو اس آئرش اداکار پاؤل میسکل نے کی۔ گلیڈی ایٹر کے رکھوالے کے طور پر امریکی اداکار ڈینزل واشنگٹن نے اپنے کیرئیر کی بدترین اداکاری اس فلم میں کی ہے۔ جب کہ پہلی فلم میں یہی کردار جس طرح نبھایا گیا ہے، وہ قابل تقلید ہے۔

ان کے علاوہ قابل ذکر اداکاروں میں چلی نژاد امریکی اداکار پیدرو پاسکل اور دونوں فلموں میں کام کرنے والی ڈنمارک کی اداکارہ کونی نیلسن قابل ذکر ہیں۔ دونوں نے اپنے کردار بخوبی نبھائے۔ یوگنڈا کے مہاجر خاندان میں پیدا ہونے والے سویڈن کے اداکار علی کریم نے بھی ایک انڈین کا کردار بخوبی نبھایا۔ ویسے تو یورپی فلم ساز اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جس خطے کا کردار ہے، اداکار وہیں سے لیناچاہیے لیکن انڈین کردار کے لیے کسی افریقی کو کس پیمانے پر کاسٹ کیا گیا یہ سمجھ نہیں آیا۔ اس فلم میں ایک اسرائیلی اداکار لیوراز اور اداکارہ یوول گونن کو بھی کاسٹ کیا گیا ہے، دونوں نے بس ٹھیک اداکاری کی۔ ان کے کردار بھی مختصر تھے۔ اسی فلم میں ایک مصری نژاد فلسطینی اداکارہ می القلماوی نے بھی ایک انتہائی مختصر کردار نبھایا ہے، لیکن ان دونوں ممالک کا پس منظر رکھنے والے اداکاروں کی ایک ہی فلم میں موجودگی کو بھی معنی خیز انداز میں دیکھا جا رہا ہے۔

حرفِ آخر

وہ فلم بین جنہوں نے اس سلسلہ کی پہلی فلم نہیں دیکھی، وقت گزاری کے لیے اسے ایک بہتر فلم خیال کریں گے، لیکن فلم ساز ان فلم بینوں سے زیادہ توقعات نہیں رکھ سکتے جو پہلی فلم دیکھ چکے ہیں۔ شاید اب برطانوی فلم ساز ریڈلی اسکاٹ تھکاوٹ کا شکار ہو رہے ہیں، جس کی وجہ سے اپنے ہی شاہکار کے قد تک خود کو بخوبی نہیں لاسکے۔ اس کے باوجود وہ میرے نزدیک ایک عظیم فلم ساز ہیں، جنہوں نے ہمیں بہت شاندار فلمیں دی ہیں اور اسی لیے ہمیں یہ فلم دیکھنا چاہیے۔ میں گلیڈی ایٹر 2 دیکھ چکا ہوں اور چاہتا ہوں گا کہ قارئین بھی عظیم فلم ساز ریڈلی اسکاٹ کی حوصلہ افزائی کی غرض سے یہ فلم ضرور دیکھیں، مگر ریڈلی کو چاہیے کہ وہ دوبارہ ایسا کوئی تجربہ نہ کریں۔

 

Comments

اہم ترین

خرم سہیل
خرم سہیل
خرّم سہیل صحافی، براڈ کاسٹر، مترجم، اردو زبان میں عالمی سینما کے ممتاز ناقد اور متعدد کتابوں کے مصنّف ہیں۔ وہ پاکستان جاپان لٹریچرفورم کے بانی بھی ہیں۔ انہیں سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز پر ان کے نام سے فالو کیا جاسکتا ہے جب کہ بذریعہ ای میل [email protected] بھی رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مزید خبریں