دنیا بھر میں بڑھتا ہوا درجہ حرارت جسے گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے، زمین پر موجود تمام جانداروں کو متاثر کر رہا ہے، بعض جاندار اس سے اس قدر متاثر ہورہے ہیں کہ ان کی نسل کو معدومی کا خطرہ لاحق ہے، کچھوا بھی انہی میں سے ایک ہے۔
ماحولیات کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی اداروں کے مطابق بڑھتا ہوا درجہ حرارت مادہ کچھوؤں کی پیدائش میں اضافے کا سبب بن رہا ہے جس سے ان کی نسل میں جنسی عدم توازن پیدا ہوسکتا ہے، اس کے نتیجے میں کچھوے کی نسل معدوم ہوسکتی ہے۔
کچھوے کی بقا کی جنگ
دنیا بھر میں کچھوے کی 7 نمایاں اقسام موجود ہیں جن میں سے 5 پاکستان میں بھی پائی جاتی ہیں، پاکستان حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے نہایت زرخیز سمجھا جاتا ہے اور 5 اقسام کے کچھوؤں کی موجودگی اس کی بہترین مثال ہے۔
تاہم پاکستان میں کچھوے کی نسل کو مختلف خطرات لاحق رہے جس کے باعث ان کی آبادی میں کمی دیکھی گئی، اس وقت پاکستان میں کئی ادارے کچھوؤں کے تحفظ کے لیے کام کر رہے ہیں اور ان کوششوں سے کچھوے کی نسل میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔
یہ جاننا آپ کے لیے باعث حیرت ہوگا کہ مادہ کچھوا ایک وقت میں 70 سے 100 انڈے دیتی ہے لیکن اس کے باوجود کچھوے کی نسل کو معدومی کا خطرہ لاحق ہے، اس کی وجہ وہ مشکلات ہیں جو نہ صرف افزائش نسل کے لیے مادہ کچھوے کو پیش آتی ہیں بلکہ ننھے کچھوے جب سمندر تک پہنچتے ہیں تب بھی انہیں بے حد خطرات لاحق ہوتے ہیں۔
مادہ کچھوا رات کی تاریکی اور سناٹے میں انڈے دینے کے لیے ساحل کی طرف آتی ہے۔ یہاں وہ ریت میں ایک گہرا گڑھا کھودتی ہے، اس کے بعد اس گڑھے میں جا کر انڈے دیتی ہے، بعد ازاں وہ اس گڑھے کو دوبارہ مٹی سے ڈھانپ کر واپس سمندر کی طرف چلی جاتی ہے۔ اس تمام عمل میں ایک سے 2 گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔
اب یہ انڈے سورج کی روشنی اور ریت کی گرمائش سے حرارت پا کر خود ہی تیار ہوجاتے ہیں اور ان میں سے ننھے کچھوے باہر نکل آتے ہیں۔ یہ ننھے کچھوے سمندر کی طرف جاتے ہیں۔
تاہم یہ سارا عمل اتنا آسان نہیں۔ مادہ کچھوے کو انڈے دینے کے لیے مکمل تنہائی، خاموشی اور اندھیرا درکار ہوتا ہے اور جیسے ہی اس میں کوئی خلل، شور شرابہ یا روشنی پیدا ہو تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔
سب سے پہلی مشکل اسے اس وقت پیش آتی ہے جب وہ گڑھا تیار کرنے کے لیے ریت میں کھدائی کرتی ہے اور ریت کے نیچے سے کچرا، پلاسٹک، ریپرز یا کوئی پتھر نکل آئے۔
مادہ کچھوا ان اشیا کو ہٹا نہیں سکتی کیونکہ اس سے اس کے بازو زخمی ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ وہ ایک گڑھا چھوڑ کر دوسری جگہ جا کر گڑھا کھودنا شروع کرتی ہے۔ وہاں بھی یہی مشکل پیش آئے تو وہ تیسری جگہ جاتی ہے جہاں سے ناکامی کے بعد وہ انڈے دیے بغیر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔
یہ سلسلہ 3 روز تک چلتا ہے۔ اگر کسی مادہ کچھوا کو 3 روز تک انڈے دینے کی مناسب جگہ نہ مل سکے تو وہ پھر وہ کبھی نہ آنے کے لیے واپس چلی جاتی ہے۔ اس کے جسم کے اندر موجود انڈے آہستہ آہستہ تحلیل ہونے لگتے ہیں یوں وہ انڈے ضائع ہوجاتے ہیں۔
دوسری صورت میں مادہ جب انڈے دے کر وہاں سے روانہ ہوتی ہے تو ساحلوں پر پھینکے کچرے کے باعث وہاں موجود کتے گڑھے کو باآسانی کھود کر انڈوں کو نکال کر کھا لیتے ہیں۔
جو انڈے ان کتوں کی دست برد سے محفوظ رہ جائیں اور ان سے ننھے کچھوے باہر نکل آئیں تو سمندر کی طرف جاتے ہوئے ننھے ننھے کمزور کچھوے ان کتوں، کووں یا چیلوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔
کچھ ننھے کچھوے ساحل پر پھینکے گئے کچرے میں پھنس کر مر جاتے ہیں۔ کچھ پلاسٹک کو جیلی فش سمجھ کر کھاتے ہیں اور فوری طور پر ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
اگر پاکستانی ساحلوں کی بات کی جائے تو ساحلوں پر تفریح کے لیے آئے افراد ننھے کچھوؤں کو پکڑ کر بازار میں بیچ دیتے ہیں یا پالنے کے لیے گھر لے آتے ہیں، جہاں یہ چند دن جینے کے بعد بالآخر مر جاتے ہیں۔
ساحل پر تفریح کے لیے آنے والے افراد مادہ کچھوے کے انڈے دینے کے عمل میں بھی مداخلت کرتے ہیں، ان کی تصاویر کھینچتے ہیں، ان پر روشنی ڈالتے ہیں اور شور مچاتے ہیں جس کی وجہ سے مادہ کچھوا گھبرا کر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے۔
سمندر تک پہنچ جانے والے کچھوؤں کی زندگی بھی آسان نہیں ہوتی، ماہی گیروں اور ماحولیاتی اداروں کی جانب سے کئی ایسے واقعات رپورٹ کیے گئے ہیں جن میں کم یا درمیانی عمر کے کچھوے سمندر میں شارک کا شکار بن گئے۔
یہ تمام عوامل وہ ہیں جن کی وجہ سے کچھوے کے سروائیول کی شرح بے حد کم ہوجاتی ہے۔
موسم سے جنس کا تعین
سنہ 2018 میں امریکا کی ڈیوک یونیورسٹی کے ماہرین نے کچھ جانوروں کے ایک جین KDM6B میں اس سرگرمی پر تحقیق کی جس کی وجہ سے بعض جانوروں کی جنس کا تعلق موسم سے ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق گرم موسم میں اس جین میں ہونے والی سرگرمی یہ طے کرتی ہے کہ انڈے سے نکلنے والے جانور کی جنس مادہ ہوگی۔
تحقیق میں کہا گیا کہ موسم سے جنس کے تعین کا عمل کچھوے کے علاوہ بھی کچھ ریپٹائلز میں ہوتا ہے جیسے کہ مگر مچھ اور چھپکلی کی ایک قسم بیئرڈڈ ڈریگن۔
سنہ 2018 میں ہی نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفرک ایڈمنسٹریشن اور ڈبلیو ڈبلیو ایف آسٹریلیا کی جانب سے اسی حوالے سے ایک تحقیق کی گئی تھی جس میں انکشاف ہوا کہ گریٹ بیریئر ریف یا عظیم حائل شعب کے شمالی حصے میں پیدا ہونے والے کچھوؤں میں سے 99 فیصد جبکہ جنوبی حصے میں پیدا ہونے والے کچھوؤں میں سے 69 فیصد مادہ ہیں۔
اس بارے میں تحفظ ماحولیات اور جنگلی حیات کے عالمی ادارے ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے ٹیکنیکل ایڈوائزر محمد معظم خان کہتے ہیں کہ درجہ حرارت نارمل ہوگا تو انڈے سے نکلنے والے نر یا مادہ کا امکان یکساں ہوگا، درجہ حرات کم ہوگا تو نر کی پیدائش ہوگی جبکہ گرم موسم سے مادہ کی پیدائش میں اضافہ ہوگا۔
معظم خان کے مطابق اب تک اس حوالے سے جامع تحقیق نہیں کی گئی کہ آیا کچھوے کی جنس میں عدم توازن پیدا ہوچکا ہے یا اس کی شرح کیا ہے تاہم کچھوے کی افزائش کے اس قدرتی پہلو کے باعث یہ طے ہے کہ بہت جلد یہ بگاڑ سامنے آنا شروع ہوجائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس بات کا خدشہ ہے کہ نر کچھوؤں کی تعداد کم ہوجائے اور مادہ کی زیادہ، جس سے افزائش کا عمل بھی متاثر ہوگا، کچھووؤں کی آبادی کم ہوتی جائے گی یوں ان کی نسل معدومی کی طرف بڑھتی جائے گی۔
ایکو سسٹم پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟
سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے ڈپٹی کنزرویٹر عدنان حمید خان کہتے ہیں کہ کچھوؤں کو آبی خاکروب کہا جاتا ہے، کچھوے سمندر اور آبی ذخائر کو صاف رکھنے میں مدد دیتے ہیں جس سے آبی حیات پھلتی پھولتی ہے۔
عدنان حمید کے مطابق کچھوے کی نسل میں اس عدم توازن کے اثرات 10 سے 15 سال بعد سامنے آنا شروع ہوسکتے ہیں، کچھوؤں کی آبادی میں کمی یا ان کی معدومی سمندروں کی آلودگی میں اضافہ کرسکتی ہے جس سے مچھلیاں اور دیگر آبی جانداروں اور پودوں کو نقصان ہوگا، اور یہ انسانوں کے فوڈ چین کو بھی متاثر کرے گا۔
انہوں نے بتایا کہ سمندری گھاس کچھوؤں کی خوراک ہے، کچھوؤں کے کھانے کی وجہ سے یہ گھاس متوازن مقدار میں سمندر میں موجود ہوتی ہے، اگر اس میں اضافہ ہوتا ہے تو اس سے سمندر کا ایکو سسٹم بھی متاثر ہوگا۔
کیا اس صورتحال کو روکا جا سکتا ہے؟
سنہ 2018 میں نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفرک ایڈمنسٹریشن کی تحقیق میں جب گریٹ بیریئر ریف میں مادہ کچھوؤں کی آبادی 99 فیصد ہونے کا انکشاف ہوا، اس وقت ماہرین نے تجویز کیا تھا کہ اس صورتحال سے بچنے کے لیے ریت پر سایہ دار جگہیں فراہم کرنا یا مصنوعی بارشیں برسانا بہتر رہیں گی جس سے ریت کا درجہ حرارت کم ہو۔
تاہم کیا پاکستان کے ساحلوں پر بھی ایسا ممکن ہے؟
اس بارے میں معظم خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ساحلی پٹی 800 کلو میٹر سے زیادہ طویل ہے اور اس پوری پٹی پر ایسے اقدامات کرنا ایک مشکل مرحلہ ہے، تاہم چھوٹے پیمانے پر کچھ اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ ریت میں موجود پلاسٹک کے ذرات (مائیکرو پلاسٹک) ریت کا درجہ حرارت بڑھا دیتے ہیں، چنانچہ ساحلوں سے پلاسٹک کی آلودگی ختم کرنا بے حد ضروری ہے۔
معظم خان کے مطابق کچھوؤں کی نسل کو لاحق دیگر خطرات کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے ماحول کے لیے بے حد اہم اس جاندار کا تحفظ کیا جاسکے۔