اسلام آباد: حکومت نے رنگ گورا کرنے والی کریموں کے خلاف بڑا ایکشن لے لیا، غیر معیاری کریموں میں انٹرنیشنل برانڈز بھی شامل ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ملک کے کونے کونے میں دستیاب رنگ گورا کرنے والی کریمیں اور صابن وسیع پیمانے پر استعمال ہوتے ہیں، لیکن یہ ہماری جلد کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔
اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر مملکت زرتاج گل نے کہا کہ 59 کریموں کا لیب ٹیسٹ کیا گیا تو ان میں 57 میں مرکری پایا گیا، ان کریموں میں انٹرنیشنل برانڈز بھی شامل تھے، اسی طرح لیب ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ 14 صابنوں میں سے 4 صابن جلد کے لیے خطرہ ہیں۔
زرتاج گل کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کا حل کمپنیوں کے ساتھ مل کر نکالا جائے گا، اس سلسلے میں کاسمیٹک کمپنیوں کو سال کے آخر تک کا وقت دے دیا گیا ہے۔
زرتاج گل نے کہا کہ انھیں حکومت میں آنے سے قبل بھی اس مسئلے کا احساس تھا، وہ اشتہارات دیکھا کرتی تھیں تو سوچتی تھیں کہ خواتین کیوں اپنے رنگ کے حوالے سے شرم محسوس کرتی ہیں، لوگ بھی ان پر باتیں بناتے ہیں۔ سانولی خواتین کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اگر آپ کا رنگ صاف نہیں تو شادی نہیں ہوگی۔
My fellow colleagues inthe industry,time fr promoting fairness creams fr the sake of money n greed has long passed.Our influence as public figures is meant to make othrs feel beautiful,not less beautiful.Shame on evryone,who still subscribes tothis way of thinking! #endcolourism
— AMNA ILYAS (@IlyasAmna) October 6, 2020
انھوں نے کہا کہ رنگ گورا کرنے والی کریمیں بنانے والی نیشنل اور ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اس صورت حال کو بہت ہوا دی، پہلے انھوں نے سانولے رنگ کو ذلت آمیز بنا دیا اور پھر طرح طرح کی کریمیں لانچ کر دیں کہ ہماری کریمیں استعمال کرنے سے آپ فخر سے چل سکیں گی۔ میں نے ان کے خلاف مہم شروع کی ہے۔
زرتاج گل کا کہنا تھا جب میں وزیر بنی تو میں نے یہ دیکھا کہ ہم کن کن انٹرنیشنل پروٹوکولز کے پابند ہیں، ان میں میرے سامنے مِناماٹا کنونشن آیا جس پر ہم نے بھی 2013 میں دستخط کیے ہیں، لیکن اس پر آج تک کام نہیں ہوا تھا۔میں نے اسے نکلوا کر اس پر کابینہ میں کام کروایا، تو ظاہر ہے کہ اس کا پتا سب کو ہوا، کمپنیوں کو اس کے بارے میں معلوم ہے کہ اس سلسلے میں کام ہو رہا ہے، میری کئی سی ای اوز سے بھی بات ہوتی رہی ہے۔ پہلے میرے پاس ایسا کوئی قانون ہی نہیں تھا کہ مارکیٹ سے غیر معیاری کریمیں اٹھائی جاتیں، لیکن اب ان کے خلاف کارروائیاں ہوں گی۔
باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی فلم اور ٹی وی اداکارہ آمنہ الیاس نے کہا کہ گندمی رنگت کی وجہ سے خواتین کو کیا کچھ نہیں سہنا پڑتا، لیکن سانولی رنگت صرف عورتوں ہی کا مسئلہ نہیں رہا ہے بلکہ مردوں کا بھی یہی حال ہے، سانولے لوگوں کو دوستوں میں طعنے پڑتے ہیں۔
انھوں نے کہا خواتین میں یہ مسئلہ اس لیے زیادہ نمایاں ہوتا ہے کہ ایک تو ان کی شادیوں کا بڑا مسئلہ ہے کہ لڑکا چاہے جیسا بھی ہو لڑکی ہمیں گوری چاہیے۔ اور یہ مسئلہ خواتین ہی کی طرف سے خواتین کے لیے ہوتا ہے۔ مائیں بھی بیٹیوں پر دباؤ ڈالتی رہتی ہیں کہ یہ لگاؤ وہ لگاؤ۔ شادیوں کی وجہ سے لڑکیوں پر اس حوالے سے زیادہ پریشر ہے۔
آمنہ الیاس نے کہا میں نے ورک پلیسز پر یہ نوٹ کیا ہے گوری خواتین کو ترجیح دی جاتی ہے، بالخصوص ایئر ہوسٹس کو دیکھیں۔ جاب کے حوالے سے بھی عورتوں کو یہ مسئلہ بہت زیادہ فیس کرنا پڑتا ہے۔ کریمز کی تشہیر کرنے والی اداکاراؤں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آمنہ نے کہا اداکاراؤں کی وجہ سے بھی لڑکیوں کو اس کی ترغیب ملتی ہے جو بیوٹی کریمز کی تشہیر کر رہی ہوتی ہیں۔ہمیں دوسروں کو کم خوب صورت محسوس نہیں کرانا چاہیے۔