لاہور: وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے حوالے سے گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو ایک اور خط لکھا دیا ہے۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق خط میں ہدایت کی گئی ہے کہ 27 اپریل فیصلے کے تحت آئین و قانون کے مطابق عمل کروں، گورنر کی حیثیت سے حلف کا تقاضا ہے آئین کا دفاع اور تحفظ کروں، آئین کے تحفظ میں ہی قوم کی بقا ہے، کسی کی خواہش کے مطابق آئین کی پامالی سے انارکی پھیلنے کا خطرہ ہے۔
خط کے متن میں کہا گیا کہ ملک کے آئین سب سے سپریم ہیں جس کی پاسداری ہر شہری اور عدلیہ پر بھی لازم ہے، 22 اپریل کو چیف جسٹس ہائی کورٹ کے تحت کام کرنے والی سنگل بینچ نے حکم نامہ جاری کیا، حمزہ شہباز کیس پر دیا گیا حکم نامہ اپنی آبزرویشن کے ساتھ آپ کو بھیجا، 27 اپریل کو پھر ہدایت کی گئی آرٹیکل 255 کے تحت وزیر اعلیٰ کا حلف لیا جائے۔
گورنر پنجاب نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں گورنر یا اس کے مقرر نمائندے کو حلف لینے کا کہا گیا، فیصلے میں صدر کو تجویز کیا گیا آئین کے مطابق اپنا کردار ادا کریں، گزشتہ درخواست پر دی گئی آبزرویشنز پہلے سے آپ کے پاس پہلے ہے، رٹ پٹیشن پر دیے گئے ریمارکس بھی آپ کے سامنے ہیں۔
عمر سرفراز چیمہ نے کہا کہ نئے اور تفصیلی فیصلے میں دیے گئے مشاہدوں کو واضح کیا گیا ہے، تفصیلی فیصلے پر قانونی ماہرین سے لی گئی رائے میں نئے سوالات نے جنم لیا، تفصیلی فیصلے پر قانونی ماہرین کی رائے پر نئے سوالات حیران کن ہیں، کیا 22 تاریخ کے فیصلے کے بعد جو معاملات زیرِ غور ہیں اس پر نیا فیصلہ آسکتا ہے؟
خط میں کہا گیا کہ ایڈووکیٹ جنرل کی رائے ہے دوسری پٹیشن پر نئے فیصلے کی آئینی اجازت نہیں، اگر اجازت ہو پھر بھی ہائی کورٹ صدر یا گورنر کو ہدایت یا تجویز کیسے دے سکتی ہے، ایک ہائی کورٹ گورنر یا صدر کو آئینی کام کرنے کے لیے وقت کا پابند کیسے بنا سکتی ہے، ایک ہائی کورٹ صدر یا گورنر کو کسی بھی معاملے میں کام کا طریقہ کیسے سمجھا سکتی ہے۔
گورنر پنجاب نے کہا کہ حلف کا معاملہ زیرِ غٖور ہے پھر بھی ہائی کورٹ آرٹیکل 199 کا حوالہ کیسے دے سکتی ہے، یہ بھی قابلِ غور ہے کہ عدالت ایسا کیوں سمجھتی ہے کہ صوبے میں وزیر اعلیٰ نہیں، یہ بات قانونی اور حقائق کے برعکس ہے، صوبے میں ایک وزیر اعلیٰ ہے، صوبائی انتظامیہ اس کے ماتحت کام کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ زیرِ بحث حساس معاملات کے علاوہ ایک اور تشویشناک بات سامنے آئی ہے، عدلیہ کی جانب سے دیگر اداروں میں مداخلت کی جا رہی ہے، حیرانگی کی بات ہے کہ صبح کے وقت ایک کیس لگتا ہے، صوبائی اور وفاق کے وکلا کو زبانی ہدایات کے تحت بلایا جاتا ہے، وکلا کو فوری ہدایات لینے کے لیے کہا جاتا ہے، کیس چلائے بغیر حتمی فیصلہ جاری کیا گیا جب کہ انتظامیہ کے پاس معاملہ زیرِ غور ہے۔
عمر سرفراز چیمہ نے کہا کہ ان تمام باتوں سے بظاہر لگتا ہے کہ ایک خاص مقصد کو حاصل کرنا ہے، یہ آئین سے روگردانی کے مترادف ہے اور تمام اداروں کو ایسی باتوں سے دور رہنا چاہیے، 27 اپریل کے فیصلے کے تحت معاملات میرے ہاتھ میں ہیں، ایمانداری اور قانون کے تحت وہ فیصلہ کروں گا جو آئین کے خلاف نہیں ہوگا، گزارش ہے کہ ان معاملات پر آئین اور قانون کے تحت رہنمائی کریں۔